262

چترال خیبرپختونخواہ کے ساتھ انتظامی الحاق کی وجہ سے پسماندہ رہا ہے …..ظہورالحق دانش

چترال کا بہتر مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟

کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ چترال صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ الحاق کی وجہ سے انفراسٹرکچر وائز پسماندہ رہا ہے۔ خیبرپختونخواہ کی قوم پرست اکثریت کے اندر چترال کی حیثیت محض ایک لسانی و قومی اقلیتی علاقہ کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ احساس ہر چترالی کو ہر پشتو بولنے والے فورم/دفتر میں جاکر یا پشتو بولنے والے افسر سے مل کر ہوتا ہے، اور ہوتا رہے گا۔ چترال کا پُرامن ہونا، یہاں کے لوگوں کا امن پسند ہونا یا چترال کی رنگارنگ ثقافتیں، زبانیں اور دوسرے ایسے پہلو جو ہمارے لیے اہمیت کے حامل ہیں اُن لوگوں کے لیے ہرگز اہمیت کے حامل نہیں ہیں جو پالیسی اور بجٹ بناتے ہیں یا پالیسیوں اور بجٹ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ چترال اُن کی نظر میں اقلیتی زبان والا ایک دور افتادہ غیر پشتون خطہ ہے جس کی ترقی سے اُس اکثریتی طبقے کو کوئی فائدہ نہیں۔ بیوروکریسی اور اسمبلی کے اندر بھی اکثریت کی زبان بولنے والے بااثر لوگ اقلیتی زبان بولنے بے اثر لوگوں کے حقوق کے لیے لابنگ کیوں کریں بھلا؟

لہٰذا ایک ایسے پیچیدہ تناظر میں شندور کے معاملے کو گلگت اور خیبرپختونخواہ کا ایشو نہ بنایا جائے۔ شندور کا معاملہ، سوائے تین دنوں پر محیط جشنِ شندور کے، انتظامی اور سیاسی معاملہ سے کہیں زیادہ عوامی معاملہ ہے۔ یہ صرف چترال اور غذر کا معاملہ ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ وادی لاسپور اور وادی گولاغمولی کا معاملہ ہے۔ دونوں گاؤں کے افراد کو تاریخی طور پر اچھی طرح علم ہے کہ اُن کی چراگاہیں کہاں سے کہاں تک ہیں۔ یہ سادہ سا معاملہ “حد بندی کا تنازعہ” اُس وقت اختیار کیا جب دونوں اطراف سے غیر ذمہ دار عناصر نے دخل اندازی کی۔ اُس طرف سے گلگتی عناصر آگے آئے اور ہماری طرف سے پختونخواہی عناصر۔ پرائی شادی میں جب یہ دو عبداللہ دیوانے آ وارد ہوئے تب معاملہ تنازعہ بن گیا۔ ہماری نظر میں اب بھی یہ کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ یہ دو بھائیوں کے درمیان ایک سیزنی چراگاہ کے معاملے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے، جو تاریخ سے لیکر دستوری و قانونی دستاویزات تک اظہر من الشمس ہے۔

اب آتے ہیں اصل بات یعنی گلگت بلتستان اور چترال کے بہتر مستقبل کی طرف۔ گلگت بلتستان اور چترال کا بہترین مستقبل ایک ایسے سیٹ اپ میں ہے کہ گلگت بلتستان ٹیریٹری کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک ختم کرکے اسے ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خودمختار صوبہ بنایا جائے اور چترال کو بھی اس میں ضم کیا جائے۔ ویسے بھی جی بی اور چترال کے تاریخی، لسانی و ثقافتی اور ریاستی رشتے بہت گہرے ہیں، عوامی سطح پر بھی دونوں اطراف کے لوگوں کے ایک دوسرے کیلئے محبت اور عزت و احترام کے جذبات قابل فخر ہیں۔ ایک ایسے خودمختار سیٹ اپ کی صورت میں ہم ثقافتی و لسانی اقلیت سے نکل کر اکثریت بن جائیں گے اور وفاق سے اپنے حقوق مانگنے کے حوالے سے بحیثیت ایک پورا صوبہ بہت بہتر پوزیشن میں ہونگے۔

چترال کے بہتر مستقبل کے حوالے سے اس سے بھی بہتر آپشن پروفیسر ممتاز حسین صاحب کے بقول یہ ہو سکتا ہے کہ چونکہ سامراجی دور سے چترال کی ایک جداگانہ اور نمایاں حیثیت رہی ہے، لہٰذا ہمارا اب بھی ریاستِ پاکستان سے اس طرح کا مطالبہ ہونا چاہیے کہ چترال کو آئینی طور پر ایک ایسے یونٹ کا درجہ دیا جائے، جس کی اپنی لیجسلیٹیو اسمبلی ہو اور اپنے آئینی دائرے کے اندر رہتے ہوئے کچھ مقامی معاملات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار حاصل ہو۔

چترال اور جی بی کے مستقبل کے حوالے سے یہ دونوں آپشنز میرے خواب ہیں۔ اور خواب دیکھنے پر تو پابندی نہیں ہو سکتی۔ سال 2005ء کے دوران جب لواری ٹنل پر کام ہو رہا تھا اور چترالیوں کو یقین تک نہیں تھا کہ یہ ٹنل بن پائے گا، تب یہ بات گردش کر رہی تھی کہ لواری ٹنل کا سٹرکچر ریل ٹنل ہے، یعنی اس ٹنل سے الیکٹرک ریل گاڑی کی مدد سے گاڑیوں کو گزارا جائے گا، تو کوشٹ چترال سے تعلق رکھنے والے کھوار کے معروف شاعر احسان اللہ احسان نے کہا تھا

ہے  موژار   موژی   ای  پھوک  ریل  دی  کاسیر

مہ   ژاؤو    ژاؤ    کی   نو،    توغو   ژاؤ  پاشیر

یعنی (سنا ہے کہ) ٹنل کے اندر ایک ریل گاڑی چلا کرے گی۔ وہ دِن میرا اپنا بیٹا نہیں تو میرے بیٹے کا بیٹا شاید دیکھ پائے۔

میرے ان خوابوں میں سے کوئی ایک بھی میرے بیٹے کے بیٹوں کی زندگی میں نہیں تو اُن کے بیٹوں کی زندگی میں شاید شرمندہ تعبیر ہوں کیا پتہ۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ اگر آپ کے خواب پر کوئی نہ ہنسے تو وہ خواب بڑا خواب ہی نہیں ہے۔ ⁦

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں