530

چین اور کشمیر

تقدیرہ اجمل

تاریخ انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں رہا جب خطہ بینظیر کشمیر عالمی اہمیت کا حامل نہ رہا ہو۔ چین کے علاوہ کشمیر واحد انسانی تہذیب و تمدن کا مسکن ہے جس کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کتابی شکل میں اور پچیس ہزار سالہ تاریخ آثار و روایات کی شکل میں موجود ہے۔ بدھ مذہب و ثقافت کا آغاز کشمیر سے ہوا چوتھی عالمی بدھی کانفرنس کا انعقاد سرینگر کے قریب کنزالوان میں ہوا جہاں آج کل سرینگر کا ہوائی اڈا ہے۔ بعض مورخین نے اسے کنڈل دان بھی لکھا ہے جو وادی نیلم کا قدیم گاؤں بتلایا جاتا ہے۔ مشہور چینی سیاح اور تاریخ دان ہیونگ سانگ نے بھی لکھا ہے کہ چوتھی عالمی بدھی کانفرنس کا انعقاد کنزل دان میں ہوا جوکشمیر میں واقع ہے۔ اس کانفرنس میں پانچ سو ولیّوں اور رشیوں نے شرکت کی اور چھ لاکھ ساٹھ ہزار الفاظ پر مشتمل تین پٹکوں (جلدوں) پر مشتمل بدھی اقوال و تعلیمات کو نہ صرف کتابی شکل دی بلکہ بادشاہ وقت کنشک کے حکم پر ان کتابوں کو تانبے کی پلیٹوں پر کندہ کروایا گیا۔ کتابوں کی کئی جلدیں تیار ہوئیں اور بدھ علمأ کے ذریعے انہیں چین، موجودہ برصغیر پاک و ہند، ایران اور لنکا تک بھجوایا گیا۔ ان تعلیمات کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کے لئے تانبے کی الواحیں کسی مندر کے تہہ خانے میں رکھنے سے پہلے جیڈ جو ایک سخت پتھر ہے کے صندوق بنوائے گئے جن میں یہ الواحیں رکھ کر پتھر کے ڈھکن رکھے گئے۔ بعض روایات میں ہے کہ پتھر کے یہ صندوق وادی نیلم یا پھر سرینگر کے اطراف میں کسی مندر کی تہہ میں ہیں۔
پہلی، دوسری اور تیسری بدھی کانفرنس بھی کشمیر میں ہی منعقد ہوئیں جس میں منگولیا، تبت، چین، لنکا اور شمالی ہند کے بدھی علمأ و فقرأ نے شرکت کی۔ ان کانفرنسوں کا احوال تبتی، چینی اور منگولین دانشوروں نے محفوظ رکھا جو آج بھی ان کی قومی اور مذہبی لائبریریوں میں محفوظ ہے۔
بدھ دور میں قائم ہونے والی شاردہ یونیورسٹی میں بدھ علمأ اٹھارہ قدیم بدھی فرقوں کی تعلیم دیتے تھے جن میں ناگار جونا اور کمار جیوا نامی دو عظیم عالم، مبلغ اور درویش سرفہرست تھے۔ ونسنٹ اے سمتھ، سید بہادر شاہ ظفر کا کاخیل کے علاوہ سفرنامہ اوکانگ میں لکھا ہے کہ نگارا جونا نوسال کی عمر میں اپنی والدہ کے ہمراہ کشمیر آیا اور کشمیرکی مختلف درسگاہوں سے ناگارا جونا بدھ مت کے اٹھارہ فرقوں کی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد کوچاچلا گیا۔ چین کے بادشاہ نے کوچاکے حکمران کو لکھا کہ ناگار جوناکی خدمات ہمیں دی جائیں تاکہ چین کے عوام دینی اور روحانی علوم سے فیض حاصل کریں۔ کوچا کے حکمران نے انکار کیا تو چین نے کوچا پر حملہ کیا اور ناگارجونا کو قید کر لیا۔ وہ قیدی کی حیثیت سے چین میں داخل ہوا تو بادشاہ نے اپنی کابینہ سمیت اس کا شاہانہ استقبال کیا۔ چین کے دور درا خطوں میں علمأ، درویش۔ دانشور اور اعلیٰ سرکاری حکام اس کے دیدار کو آئے۔ ناگار جونا نے بدھ مذہب اور تہذیب کی بنیاد رکھی جس کی وجہ سے چین علم و دانش کا گہوارہ بن گیا۔ ناگار جونا نے کشمیر ی بدھ علمأ کی مرتب کردہ کتاب استاگرنتھا کے علاوہ دیگر کتب کا چینی، تبتی اور منگولین زبانوں میں ترجمہ کیا اور مترجموں کی ایک جماعت تیار کی جس میں مرد و خواتین شامل تھیں۔ اس مقدس کتاب کا پہلا نام کشمیرا استاگرنتھاجو آریاؤں کی آمد سے ہزاروں سال پہلے کے تہذیبی دور کے روحانی اثاثے کی نشاندہی کرتی ہے۔ گوتم بدھ نے اپنی زندگی میں کوئی کتاب نہ لکھی۔ گوتم بدھ نے ایک “سنگھا”ترتیب دی جو دو سو نیک لوگوں پر مشتمل تھی۔ گوتم بدھ کے انتقال کے سواسو سال بعد ایک نئی “سنگھا” بدھ علمأ کونسل ترتیب دی گئی جس میں پانچ سو راہب شامل تھے۔ اس سے پہلے گوتم کی تشکیل شدہ “سنگھا” مجلس علمأ میں ایک سو مرد “بھکیش”اور ایک سو عورتیں “کو تنریا nuns ” شامل تھیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر گوتم بدھ کی تشکیل کردہ مجلس میں عورتیں جو علم میں مردوں سے کسی طرح کم نہ تھیں شامل ہوئیں تو یقینا بعد میں تشکیل شدہ مجالس میں بھی عورتیں خواتین بھکش شامل رہی ہونگی۔ بدھ کی تعلیمات کے دس بنیادی نکات بھد بھکشوں اور بدھ خواتین بھکشوں کے لئے لازم قرار دیئے گئے تھے کہ وہ ان پر عمل کریں اور ان ہی کو اپنی تبلیغ میں اولیت دیں۔ بدھ کے بنیادی اصولوں کے لیے حکم تھا کہ مندروں کے پروہت آٹھ نکات پر اور عوام پانچ نکا ت پر عمل کریں۔
بدھ مت کی تعلیمات کی پہلی تاریخ ایک سو قبل مسیح میں لکھی گئی جس کا سہرا کشمیر سے سری لنکا جانیوالے عالم اور روحانی شخصیت واتاگمانی ابھایا کی سرکردگی میں لکھا گیا۔ یہ تاریخ پتوں پر لکھی گئی جسے ٹرائی پٹکا کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخ تین حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلا حصہ مرد اور خواتین بھکشوں کے لئے تھا جس میں بنیادی تعلیم کے علاوہ تبلیغ کے احکامات مراقبہ، مشاہدہ، خوراک کا حصول، رہائش، طہارت وپاکیزگی کے علاوہ دیگر دینی، روحانی معاشرتی اور تمدنی احکامات تھے۔ پہلے پٹکے کا نام وینا پٹکا تھا۔
دوسرا حصہ سوناپٹکا تھا جو پانچ کتابوں پر مشتمل تھا۔ پانچویں کتاب کی ضغامت و تفاصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید گیارہ کتابیں اس میں شامل کی گئیں۔ سوناپٹکا میں بدھ کی تقاریر، احکامات، وعظ ونصیحت، انسانوں کے باہم میل ملاپ پر مبنی احکامات سادہ الفاظ میں بیان کیے گئے۔ اسی کتاب کے پہلے حصے میں شامل قدیم ہند کی تاریخ، رسم و رواج، عبادات، سائنس اور آرٹ پر مفصل بحث کی گئی۔
تیسرا حصہ ابی دھرماپٹکا سات کتابوں پر مشتمل ہے جس میں گوتم بدھ کی تعلیمات اور فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔ ٹرائی پٹکا کا مطلب تین علوم کی خوبصورت اور خوشبودار ٹوکری ہے۔ یہ ٹوکری اوّل پتوں پر سجائی گئی اور پھراس کی جلدیں کشمیر روانہ ہوئیں۔ کشمیری علمأ نے اس پر تصدیقی مہر لگائی اور اسے پتوں سے مٹی کی الواحوں اور بھوج پتروں پر منتقل کیا۔ کشمیری راہوں اور بھکشوں مرد و خواتین کی ایک جماعت تبت اور دوسری چین روانہ ہوئی جن کے سفر و حفاظت کا انتظام چینی اور تبتی حکمرانوں نے کیا۔
چینیوں نے کشمیر اور چین کے سرحدی علاقے میں ایک علمی اور روحانی شہر آباد کیا جس کی عبادت گاہوں، محلوں اور درس گاہوں میں بدھ کی تعلیمات نقش و نگار کی صورت میں دیواروں اور چھتوں پر منتقل کر دیں۔ چینی ہنر مندوں اور نقاشوں نے یہ علم کپڑے اور کاغذ پر منتقل کیا اور ہر جگہ عظیم لائبریریاں قائم کر دیں۔ آج یہ شہر چین کے مشہور اور دنیا کے خوفناک ترین صحرا “تکلہ مکان”کے نیچے دفن ہے۔ اشوک کے دور میں نو بدھ علمأ کا ایک وفد کشمیر آیا جو تبت اور چین کا دورہ کرنے کے بعد شاردہ پہنچا۔ کشمیری مبلغ اور قلم کار جونا کی سربراہی میں چین میں دارالترجمہ، اشاعت اور ایک عظیم یونیورسٹی قائم ہوئی جس میں دینی، روحانی، سائنسی اور دیگر تعلیمات کے علاوہ طب، فلسفہ وحکمت، علم فلکیات اور مصوری کی تعلیم دی جاتی تھی۔
چین کی اس یونیورسٹی میں کشمیری بدھی علمأ، درویش، (مرد و خواتین) بھی درس و تدریس کے مختلف شعبوں سے وابستہ تھے جو چینی اور کشمیری تہذیب و تمدن کا مشترکہ اثاثہ تھے۔ ہیون سانگ، اوکانگ اور فائین جیسے سیاح، تاریخ دان اور عالم مختلف ادوار میں کشمیر آئے اور چینی اور کشمیری تہذیب و تمدن کے مشترک آثاروں اور تاریخی حوالوں کا مشاہدہ کیا۔
طوفان نوحؑ سے پہلے ناگ تہذیب سارے کشمیر اور جنوبی چین میں اپنے عروج پر تھی۔ ناگ تہذیب کے آثار سے پتہ چلتا ہے کہ لاکھوں سال پہلے چینی اور کشمیری تہذیبوں میں ہم آہنگی تھی۔ دونوں تہذیبوں کے علمأ، فقرأ، مصوروں اور ہنرمندوں کا ہی نہیں بلکہ عوام کا بھی باہم میل جول تھا۔
مسلم دور میں اصحاب رسول ؐکے علاوہ ہزاروں مبلغین، درویش اور اولیائے کرام چین آئے اور یہاں کے ہی ہوگئے۔ کاشغر کی مساجد اور مقابر چینی اور اسلامی تہذیب کی ہم آہنگی کا واضع ثبوت ہیں۔ منگولوں نے چین پر قبضہ کیا تو اس کے اثرات کشمیر تک آئے۔ تیموری ترکوں نے کاشغر پر قبضہ کیا تو اس کا پہلا دارالخلافہ ثمرقند تھا۔ بعد میں ترکوں کے درمیان آپسی چپقلش ہوئی تو مغلستان (کاشغر) اور ماورالہنر دو الگ ملک بن گئے۔ اسی دور میں شہزادہ دولت بیگ کسی بغاوت کے نتیجے میں کشمیر آیا اور واپسی پر اولڈی کے مقام پر شہید کر دیا گیا۔ اسی دولت بیگ کے نام پر دولت بیگ اولڈی کی بستی قائم ہوئی جو کشمیر سے چین، تبت اور براستہ ہنزہ و مسگرماورالنہر جانے والی شاہراؤں کے سنگھم پر واقع ہے۔
ترک دور حکومت میں لداخ و زنسکار کے بیشتر حصوں پر تبتی اور کاشغری مغلستانی حکمرانوں کا قبضہ تھا۔ آخری ترک حکمران سلطان محمد سعید خان کشمیر کی سیاحت کے بعد واپس جاتے ہوئے دولت بیگ اولڈی کے معام پر فوت ہوا جسے یارقند میں دفنایا گیا۔ بعض روایات میں ہے کہ اسے ختن یا پھر موجودہ وادی گلوان میں دفنایا گیا اور بعد میں اس کی میت کسی صوفی بزرگ کے مقبرے میں منتقل کی گئی۔
کشمیر ی بدھ عالم ناگارجون سے لے کر تا دم تحریر کشمیریوں اور چینیوں کا علمی، روحانی و تہذیبی اور تاریخی تعلق کسی نہ کسی صورت قائم ہے۔
ناگارجون نے نصیحت کی تھی کہ اس کی قبر پر سراسوتی دیوی جس کا مسکن نیلم کشمیر کا خوبصورت ترین حصہ ہے سے منسوب لوٹس کے پھول سجائے جائیں۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے نہ دیکھ بلکہ وہ دیکھ جو میں نے لکھا ہے۔ ناگارجون کا مشہور قول ہے۔ “Love to lotus not to mud”، ناگار جونا کے ہم مکتب کمار جیوا نے شاردہ وادی نیلم میں علمی درسگاہ قائم کی۔ دیکھا جائے تو سراسوتی دیوی کا مسکن شارہ ہی بدھی علم و فکر کا مرکز ہے جو ہزاروں سال تک بدھ مت کے ماننے والوں کے لئے مقدس مقام رہا۔
کائناتی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو چین اور کشمیر کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کے قدیم ترین مسکن رہے ہیں اور دونوں خطوں کے انسانوں کا باہم تعلق و رشتہ ہر تہذیبی دور میں مثالی رہا ہے۔
ناگارجون دونوں تہذیبوں کا مشترکہ اور مقدس اثاثہ ہے۔ بدھ کے پہلے پانچ اقوال عین اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکتھے ہیں۔ ایک حدیث رسو ل ؐکے مطابق ہے اور دو کا تعلق تصوف و شریعت سے ہے۔ حضورؐ نے فرمایا تھوڑی بھوک رکھ کر کھاؤ حج کے دوران خوشبو لگانا منع ہے۔ کم کھانا، کم سونا، کم بولنا تزکیہ نفس کی ضرورت ہے۔ کرپشن اور غبن کرنے والے کے خلاف سخت شرعی قوانین کے نفاذ کا حکم ہے۔ ناگار جون کے بیان کردہ قول حضرت علیؓ کے قول کی تشریح ہے۔ آپؓ نے فرمایا یہ نہ دیکھو کس نے کہا ہے۔ یہ دیکھو کہ کیا کہا ہے۔ قرآن میں فرمایا وہ اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور تمہاری اچھی اچھی صورتیں بنائیں۔ اصل تعریف خالق کی ہے جس نے مخلوق پیدا کی۔ صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں کہ کچی مٹی کی صورت سے عشق کرنا کوئی دانائی نہیں۔ عقل کی بات تو یہ ہے کہ انسان اس کاریگر سے محبت کرے اور اسی کی تعریف کرنے جو اچھی اور خوبصورت شکلیں بناتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں