392

آغا خان ہیلتھ سروسز کے ایمرجنسی ریسپانس سینٹر میں103 سالہ بزرگ نے کورونا کو شکست دے دی،اپرچترال کے پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے عزیز عبد العلیم کو بونی کے ایمرجنسی سینٹر میں داخل کیا گیا تھا

بونی، اپر چترل،20جولائی،2020 : اپر چترال کے دوردراز پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 103سالہ بزرگ، عزیز عبدالعلیم نے کووِڈ 19- (COVID-19)کو شکست دے دی۔
عزیز عبدالعلیم کو حال ہی میں ، اپر چترال کے علاقے بونی میں ،قائم کیے گئے آغا خان ہیلتھ سروس ایمرجنسی ریسپانس سینٹر میں یکم جولائی کو داخل کیا گیا تھا۔ ان کا کووِڈ 19-کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ ا±ن کا علاج فوراً شروع کر دیا گیا تھا اور ایمرجنسی سینٹر میں تقریباً دو ہفتے داخل رہنے کے بعد وہ صحت یاب ہوگئے اور اِس دوران انہیں اضافی آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑی۔ صحت بہتر ہونے، اور کسی قسم کی علامات ظاہر نہ کرنے پر انہیں 13جولائی، 2020ءکو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔

اس بارے میں آغا خان ہیلتھ سروس خیبر پختونخوااورپنجاب ریجن کے ریجنل ہیڈ معراج الدّین نے کہا:”ہم نے عزیز کی عمر زیادہ ہونے کے باعث ایک انتہائی نازک حالت والے مریض کے طور پر علاج کیا اور مناسب طبی دیکھ بھال فراہم کرنے کے ساتھ نفسیاتی اور اخلاقی مدد بھی فراہم کی۔ فکرمندی کے ایسے موقع پر نفسیاتی اور اخلاقی مدد کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اِس سہولت پر ہم نے بہت کم وقت میں کووِڈ 19- کے 59 مریضوں کا کامیابی سے علاج کیا ہے جن میں بعض زیادہ عمر کے افراد بھی تھے۔“

اپر چترال کے علاقے بونی میں کووِڈ 19-کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے انتظاما ت کے پیش نظر آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان نے مئی کے آغاز میں ایک ایمرجنسی ریسپانس سینٹر قائم کیا تھا جس کے لیے فنڈز گلوبل افیئرز کینیڈا، یورپین یونین، یونائٹڈنیشنز پاپولیشن فنڈ (UNFPA) اور آغا خان ڈیویلپمنٹ فنڈ (AKDN)کے اندرونی ذرائع سے حاصل کیے گئے تھے۔بونی میں ایمرجنسی ریسپانس سینٹر کا قیام، آغا خان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کی ا±ن اضافی کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد پاکستان کے درودراز اور پہاڑوں میں گھری الگ تھلگ کمیونٹیرز کو ،کووِڈ 19- کی وبا کے دوران معیاری ہیلتھ کیئر کی فراہمی یقینی بنانا تھا۔

”ہم اپنے والد کی انتہائی خراب صحت کے پیش نظر بہت تشویش میں تھے۔ ہمیں ا±ن کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی تاہم، جب میرے والد صاحب کوہسپتال کے فارغ کیا گیا تو ہم سب بہت خوش تھے۔ اُنہوں نے ریسپانس سینٹر میں موجود عملے کے تمام افراد اور ہر ا±س شخص کا شکریہ ادا کیا جس نے ا±ن کی دیکھ بھال میں حصہ لیا تھا۔“ عزیز عبدالعلیم کے بیٹے سہیل عزیز نے کہا۔

کووِڈ 19-کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے 28بستروں پر مشتمل دیکھ بھال کی اِس سہولت میں مرد اور خواتین مریضوں کو الگ الگ رکھا جاتا ہے اور کووِڈ 19-کی درمیانی، شدید اور نازک علامتیں رکھنے والے مریضوں کے علاج کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اِس سہولت کو 32 افراد پر مشتمل عملہ چلاتا ہے جن میں 8 ڈاکٹرز اور 20 نرسیں شامل ہیں ۔ اُنہیں فراہم کی گئی تمام لازمی اشیاءمیں ادویات اور مریضوں کے لیے پرسنل پروٹیکٹو ایکوپمنٹ (PPE) شامل ہیں۔

دوسرے ایمرجنسی سینٹر کا افتتاح، گزشتہ ماہ، گرم چشمہ میں ہوا تھا جبکہ تیسرے سینٹر کا افتتاح ،اسی ماہ کے آغاز میں ، مستوج میں ہوا تھا جس سے چترال میں میں مجموعی گنجائش بڑھ کر 72 بستر تک ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ، گلگت-بلتستان میں بھی آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کی جانب سے، ہنزہ کے مقام پر، قائم کی گئی کووِڈ 19- کے مریضوں کے لیے51 بستروں پر مشتمل نئی سہولت کا افتتاح، توقع ہے، اگست میں ہو گا۔

وبا کی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تیزی سے قابل تنصیب، آسانی سے تعمیر ہونے والی اور مطابقت پیدا کرنے والی ٹیکنالوجیز کی ضرورت تھی۔ آغا خان ہیلتھ سروسز نے پاکستان کے دوردراز اور پہاڑی علاقوں میں تعمیرات کے حوالے سے آغا خان ایجنسی برائے ہیبی ٹیٹ (AKAH) کی مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چترال اور گلگت-بلتستان میں تیزی سے ایمرجنسی ریسپانس سینٹرز قائم کیے ہیں۔اِن ریسپانس سینٹرز کی کم سے کم وقت میں تعمیر کے لیے اپنے پارٹنرز مثلاً بیٹر شیلٹر ( Better Shelter) جیسے پری –فیبریکیٹیڈ میٹریل اور ماڈیولرکے لیے مدد حاصل کی گئی ہے۔

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال، کراچی نے ان ایمرجنسی سینٹرز کے عملے کو تربیت فراہم کی ہے تاکہ یہ بات یقینی بنائی جا سکے کہ اِن علاقوں میں فراہم کی جانے والی ہیلتھ کیئرتازہ ترین معلومات اور تجربات پر مشتمل ہے اور اعلیٰ ترین معیار کے مطابق ہے کیوں کہ کووِڈ 19-کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور نت نئی معلومات سامنے آ رہی ہیں۔ دی آغا خان یونیورسٹی ہسپتال(AKUH) اور صحت کے عالمی ماہرین آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان کے طبی عملے کوکووِڈ 19- کے علاج سے متعلق مختلف پہلوو¿ں پر تربیت فراہم کی ہے جن میں ناز ک حالت والے مریضوں کی دیکھ بھال، ویسٹ منیجمنٹ، پی پی ای کٹس کا استعمال، اسکریننگ نمونے کے جمع کرنے، اسٹور کرنے اور نقل و حمل کے بارے میں حکمت عملی شامل ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں