499

کرپٹ سیاسی نظام اور بے لگام نوکر شاہی

تقدیرہ اجمل

جس طرح تمدن اور تاریخ کا باہم رشتہ و تعلق ہے ویسے ہی ریاست، سیاست، حکومت اور حکومتی مشینری ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ تمدن کو وسیع تر معنوں میں لیا جائے تو سیاست و معاشرت کی ترقی و ترویج کے لئے ریاست کا وجود اور نظام حکومت چلانے والے اداروں کا قیام اولین ترجیح ہے۔ ریاست میں بسنے والے انسانوں کو ضروریات اور وسائل کی تقسیم کے علاوہ قوانین کا نفاذ اور شہریوں کی زندگی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ چونکہ ہر شہری اپنے الگ مزاج و میلان کی وجہ سے ریاست کا نظام چلانے کے قابل نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے کہ وہ اپنی روزمرہ زندگی کے معاملات اور پیشہ ورانہ ضروریات کے ساتھ حکومتی معاملات بھی چلا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی نمائندے یا پھر عوام میں سے اعلیٰ علمی، عقلی اور سیاسی صلاحیتوں کے حامل افراد ایک وضع کردہ نظام کے تحت حکومتی نظام کا حصہ بن کر ریاست کا نظام چلاتے ہیں۔
نظام حکومت و ریاست چلانے والے افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیک نیت، عوام دوست، عادل، بے لوث اور انتہائی ذمہ دار ہوں۔ خود غرض، لالچی، ہوس پرست، بدچلن اور بدکار آدمی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مخلوق خدا کی نمائندگی کرے۔ معاشرے کے نیک اور انتظامی صلاحیتوں کے حامل افراد میں بھی کلی یگانگت و ہم آہنگی نہیں ہوتی چونکہ ان کے علم، تجربے، مشاہدے، تربیت، خاندانی و قبائلی روایات اور عادات و خصلیات میں فرق ہوتا ہے۔ انسانی رویوں اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری سمجھا گیا کہ وہ افراد جو ریاستی نظام چلانے کے اہل ہیں وہ باہم مل کر ایک لائے عمل تیار کریں جس کے تحت قوانین کا اجرأ ہو جس میں ہر شہری کے حقوق و فرائض کا تعین کیا جائے۔ ابتدائی انسانی معاشرے کی تاریخ دیکھی جائے تو ہمیں قبائلی ریاست کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔ اس معاشرے اور ریاست کا حکمران سب سے طاقتور آدمی ہوتا تھا جو اپنے قبیلے کی حفاظت کے علاوہ ان کے باہمی جھگڑے اور اختلافات قبائلی رسم و رواج کے مطابق چلا یا کر تھا۔ قبائلی سردار یا حکمران بھی یہ کام اکیلے سر انجام نہ دیتا تھا بلکہ وہ قبیلے کے عقلمند، دلیر، طاقتور اور باصلاحیت مردوں اور عورتوں پر مشتمل ایک کابینہ کا چناؤ کرتا اور ان کے مشورے کے مطابق قبائلی ریاست کا نظام چلاتا۔ اگر کسی مجبوری یا مہم کے سلسلے میں مرد اپنے علاقے یا بستیوں سے باہر ہوتے تو عورتیں باہم مل کر کھیتی باڑی، گلہ بانی اور بوقت ضرورت دفاعی امور بھی سرانجام دیتیں۔
قدیم شہری ریاستوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یونانی، چینی، مصری اور بابلی شہری نظام سے صدیوں پہلے مکی شہری ریاست کا وجود قائم تھا۔ یہ ریاست ایک سو تیس مربع میل پر قائم تھی جس میں نو بڑے، طاقتور جنگجو اور تاجر پیشہ قبیلوں کے علاوہ درجنوں چھوٹے قبیلے آباد تھے جن کی حفاظت بڑے قبائلی سرداروں کی ذمہ داری تھی۔ مکہ دنیا کی پہلی ریاست تھی جہاں پالیمانی نظام حکومت رائج تھا۔ اس ریاست کا ہر عاقل و بالغ شہری چالیس سال کی عمر میں خودبخود پارلیمنٹ کا ممبر بن جاتا اور ریاستی امور چلانے والی حکومتی مشینری کا حصہ بن کر اپنی علمی، عقلی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مطابق فرائض سرانجام دیتا۔ تاریخ کے علم کا اجرأ یونان سے ہوا جس میں طوفان نوحؑ کے بعد حضرت ابراہیمؑ کے دور کے حالات اور اس دور میں قائم معاشروں، ریاستوں، تہذیب و ثقافت، حکومتوں اور حکمرانوں کے حالات قلمبند کئے گئے۔ اس سے قبل انسانی معاشرے کے خدوخال کیا تھے اور ریاستی نظام کس اصول و ضابطے پر چلتا تھا اس کی کوئی تاریخ نہیں۔ تاریخ دانوں نے اسے زمانہ قبل از تاریخ قرار دے کر اپنی جان چھڑالی مگر وہ ربّ جس نے یہ کائنات تخلیق کی اور قلم کے ذریعے انسان کو علم دیا اور وہ کچھ سکھلایا جو وہ جانتا نہ تھا، کتاب حکمت، قرآن کریم کے ذریعے ابتدائے آفرینش سے لے کر قیام قیامت اور بعد از قیامت کے حالات و واقعات پر مبنی اٹل اور ناقابل تروید و تسخیر دستاویز اپنے محبوب بندے اور آخرالزمان پیغمبر حضور سرور کائناتؐ کے ذریعے نازل کی اور خود اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لیا۔
محققین اور دانشور جس علم کا کھوج لگانے سے قاصر تھے خالق کائنات نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے خود اس علم کا اجرأ کیا مگر باوجود اس کے انسان اپنی کمتر عقلی اور علمی صلاحیتوں کے باعث اس سے بھرپور فائدہ نہ اٹھا سکا۔ تمدنی دور کے آغاز سے لے کر تا حال انسانی معاشرے اور ریاست کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی نظام میں ردوبدل ہوتا رہا جسے معاشرتی، سیاسی، ریاستی اور حکومتی ارتقائی عمل کہا جاتا ہے۔
محققین اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی ریاستی اور حکومتی نظام الٰہی کائناتی نظام کا ہی پر تو ہے۔ اللہ خالق کل کے ارادے اور حکم پر عشرہ العقول نے یہ کائنات تخلیق کی اور پھر اللہ، واحد، حاکم، بادشاہ، خالق و مالک نے اس پر اپنا حکم جاری کردیا۔
دنیا کے سب سے بڑے فاتح اور سب سے بڑی ریاست کے حکمران امیر تیمور کے نام خط میں اس کے پیرومردش میر سید شریف نے لکھا “اے ابومنصور تیمور یاد رکھ کہ کارخانہ سلطنت بھی خدائی سلطنت کا ہی نمونہ ہے۔ جس طرح خدائی سلطنت کے ارکان اپنے اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے مرتبے، اختیارات اور وضع کردہ قوانین سے تجاوز نہیں کرتے اور حکم الٰہی کے منتظر رہتے ہیں اسی طرح تمہاری سلطنت کے سپہ سالاروں، حاکموں، عمال، کارکنوں، وزرأ، شرفأ اور علمأ کو اپنی حدود سے قدم باہر رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہر کام تمہاری منشأ اور حکم کے مطابق ہونا چاہیے۔ یاد رکھ تواپنے حکم، ارادے اور منشأ میں آزاد و خود مختار نہیں۔ اللہ کا حکم اور رسولؐ کی سیرت اور شریعت تم پر لاگو ہے۔ تمہاری ریاست میں بسنے والے ہر ذی روح کی حفاظت، خدمت اور عزت تمہارے ذمے ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ ریاست میں ایسے قوانین کا اجرأ ہوتا کہ کوئی شخص بلحاظ عہدہ و مرتبہ اس سے تجاوز نہ کرے۔ ورنہ تیری سلطنت کے امور میں خلل و فساد پیدا ہوگا اور نظام درہم برہم ہوجائے گا جس کے ذمہ دار خود تم ہوگے۔ یہ احکامات ہر خاص و عام کے لئے ہی نہیں بلکہ تمہاری اولاد اور حرم پر بھی یکساں لاگو ہیں۔ ہر قوم، قبیلے اور گروہ کو اس کے مرتبے پر رکھ اور آنحضرتؐ کے مرتبے کو تمام مراتب سے برتر سمجھ۔ آپؐ کی سیرت کا مطالعہ قرآن کی روشنی میں کر اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کی تعظیم وتکریم کو ہر حکم اور قانون پر محترم و مقدس سمجھ کر اپنا سر سجدے میں رکھ کر اپنی کوتاہیوں پر معانی کا طلبگار رہ۔
تاریخ کے علم سے پتہ چلتا ہے کہ مقتدر اعلیٰ کا دفتر ہر انسانی معاشرے اور ریاست میں قائم تھا جس کی معاونت قبیلے کے سردار، عالم، وزیر، مشیر اور عمال یعنی نوکر شاہی یا بیوروکریسی کرتی تھی۔ بابلی اور سومیری ادوار کے آثار میں بیوروکریٹک نظام کا پتہ چلتا ہے کہ گل گامش، نمرود اور فرعونوں کے نظام حکومت میں نوکر شاہی کا ادارہ پوری طرح فعال تھا اور معاشرے کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے، عقلمند، منصوبہ ساز اور عوامی معاملات کا علم رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو بادشاہوں اور وزیروں کی عوامی معاملات کے علاوہ مختلف ریاستی امور چلانے میں نہ صرف مدد کرتا تھا بلکہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق مفید اور قابل عمل مشورے بھی دیتا تھا۔
اس ادارے سے منسلک افراد کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی اور قوانین کی خلاف ورزی پر انہیں سخت سزائیں دی جاتی تھی۔ سرکاری ملازمین کی کفالت کے لئے انہیں جاگیریں دی جاتی تاکہ منصب کے لحاظ سے ان کا معیار زندگی بلند رہے۔ چینی دانشور، محقق، قانون دان اور منصب اعلیٰ کنفیوشس موجودہ بیوروکریٹک نظام کا گاڈ فادر ہے۔ کنفیوشس جاگیر دارانہ دور میں پیدا ہوا جس کی کوششوں سے کسانوں اور عوام کے حقوق کسی حد تک تسلیم کرلئے گئے۔ کسانوں اور مزدوروں کی محنت کا کچھ حصہ انہیں ملنے لگا اور عدل و انصاف کا باقاعدہ نظام وضع کیا گیا۔ بادشاہوں اور جاگیرداروں کی موت یا معزولی کے بعد ملک میں افراتفری پھیل جاتی یا پھر اقتدار کے حصول کے لئے شاہی خاندان ایک دوسرے کے خلاف صف آرأ ہوجاتے۔ جنگوں کی صورت میں بادشاہ، جاگیردار، صوبیدار، جرنیل اور دیگر اعلیٰ عہدے دار سرحدوں پر چلے جاتے جن کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر چور، ڈاکو اور غنڈہ عناصر لوٹ مار کرتے۔ شہر، بستیاں اور کھیت کھلیان اجڑ جاتے جس کی وجہ سے معاشرہ بد حال اور ریاست غیر فعال ہوجاتی۔
کنفیوشس نے نوکرشاہی کا نظام متعارف کروایا اور معاشرے کے پڑھے لکھے، عقلمند اور سنجیدہ نوجوانوں کے درمیان مقابلے کے امتحان کا قانون بنا کر بادشاہ اور کابینہ سے منظوری لی۔ کامیاب امیدواروں کی تربیت کے لئے ادارے قائم کئے جہاں انہیں پیشہ ورانہ تعلیم کے علاوہ اخلاق، آداب اور قانون کی تعلیم دی جاتی۔ دوران تربیت ان کے رجحان ومیلان کو پرکھنے کا الگ ادارہ تھا جو ان کی نشست و برخاست اور عام بات چیت سے ان کی خصلیات، جبلت اورخساست کا اندازہ لگا کر انہیں کسی ادارے میں تعیناتی کی سفارش کرتا۔ جو لوگ علم و عقل کے باوجود خساست کی وجہ سے غیر معیاری اور پست ذہنیت کے حامل ہوتے انہیں تربیت کے دوران ہی فارغ کر دیا جاتا۔
چین کے اس متبادل حکومتی نظام نے ساری دنیا کی حکومتوں اور حکمرانوں کو اسے اپنانے پر مجبور کردیا مگر بعض ممالک میں شاہی خاندانوں کے افراد کو ترجیح دی گئی یا پھر سلیکشن اور تربیت کا طریقہ بدل دیا گیا۔ اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ عدل و انتظام کے ادارے مضبوط ہوئے اور سیاسی مداخلت کسی حد تک ختم ہوگئی۔ افسر قانون کی پابندی کرتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینے لگے۔ ان کی تنخواہوں اور مراعات کا قانون اور نوکری کا تحفظ وضع کر دیا گیا جس کی وجہ سے وہ بے فکری اور دیانت داری سے کام کرنے لگے۔ حکومتیں اور حکمران بدلنے کی وجہ سے ریاست کے نظام پر کوئی اثر نہ پڑتا اور نظام حکومت اپنی قانونی قوت سے چلتا رہتا۔
مغل ہندوستان میں آئے تو ان کے ساتھ تیموری طریق حکمرانی کا نظام بھی تھا۔ مغلوں نے شاہان دہلی کے نظام کو نہ چھیڑا بلکہ تیموری نظام کی بعض شقوں کو شا مل کر کے جاری نظام میں بہتری کا رجحان پیدا کیا۔ شیرشاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر حکومت پر قبضہ کیا مگر حکومتی اداروں اور نظام حکومت پر کوئی قدغن نہ لگائی۔
شیرشاہ نے ہمایوں کے وزیر مال و خزانہ راجہ ٹوڈر مل کے علاوہ دیگر عمال اور عہدے داروں کو ان کے عہدوں اور رتبوں پر بحال رکھا۔ قانون گو لکھتا ہے کہ افغان صرف جنگیں لڑنا اور لوٹ مار کرنا جانتے تھے۔ ان میں انتظامی صلاحیتوں اور عدل و انصاف کرنے کی خوبیوں کا فقدان تھا۔ ان کی ہمدردیاں، دوستیاں اور دشمنیاں بدلتے دیر نہ لگتی تھی اور نہ ہی امن و امان برقرار رکھنے کی صلاحیت تھی۔
شیرشاہ سوری کا مثالی انتظامی، عدالتی اور ٹیکس کا نظام آج بھی ضرب المثل ہے۔ تحصیلداری اور پولیسنگ کا نظام ماؤرانہر، ہندوستان اور ترکستان میں پہلے سے جاری تھا۔ خراسان موجودہ ایران عراق کا حصہ تھا جہاں تیموری نظام حکومت کارفرما تھا۔ تیمور اپنی تزک میں لکھتا ہے کہ اس نے حضرت عمر خطابؓ کے طریق حکمرانی کو اپنایا جس کی وجہ سے ملک میں عدل و امن کے ساتھ خوشحالی کا دور رہا۔ عمال یعنی سول سرونٹ کو اس کے مرتبے کے مطابق مراعات دی گئیں اور بداعمالی پر مثالی سزائیں بھی دی گئیں۔
وہ لکھتا ہے کہ اعمال کی باز پرسی کا نظام ڈھیلا ہو تو ملک میں انتشار پیدا ہوجاتا ہے۔ تاریخ رشیدی کا مصنف مرزا حیدر دوغلات لکھتا ہے کہ بادشاہ کا حکم عدل سے مبّرا اور خواہش کا ترجمان ہو تو ظلم کہلاتا ہے۔ اعمال اپنی حدود اور قانون کے سائے سے نکل کر کوئی کام کریں تو ریاست اور حکومت کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں