288

کالاش تہذیب و ثقافت اور اس کا قدیم آرکیٹکچر عظیم سرمایہ ہیں /ڈائریکٹر آرکیالوجی اینڈ میوزیم صوبہ خیبر پختونخوا ڈاکٹر عبد الصمد

چترال ( محکم الدین ) ممتاز ماہر آثاریات ڈائریکٹر آرکیالوجی اینڈ میوزیم صوبہ خیبر پختونخوا ڈاکٹر عبد الصمد نے کہا ہے ۔ کہ کالاش تہذیب و ثقافت اور اس کا قدیم آرکیٹکچر عظیم سرمایہ ہیں ۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قدیم ٹریڈیشنل آرکیٹکچر کی اہمیت سے بے خبر ہونے کی سےیہ عمارات انتہائی تیزی سے ختم ہو رہی ہے ۔ اگر جدید تعمیرات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا ۔ تو بہت کم عرصے میں ہم قدیم آرکیٹکچرسے محروم ہو جائیں گے ۔ جبکہ پوری دنیا میں کالاش تہذیب و ثقافت اور اس کے ہیرٹیج کی بہت اہمیت ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز کالاش ویلی بمبوریت میں میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر زارا ، چترال میوزیم کے انکیوبیٹر سید گل کالاش ، ریسرچ اسسٹنٹ کالاشہ دور میوزیم اکرام حسین اور دیگر موجود تھے ۔ ڈاکٹر صمد نے کہا کہ آرکیٹکچر میں تیز رفتار تبدیلی کی بنیادی وجہ قانون کا نہ ہونا اور موجود قوانین پر عملدر آمد میں کو تاہی ہے ۔ اس لئے ہماری کوشش ہے ۔ کہ کالاش ثقافت کی منفرد حیثیت کے پیش نظر اس علاقے کے لئے خصوصی قانون سازی کی جا ئے ۔ جس پر آرکٹکٹ ڈکٹر زارا کام کر رہی ہیں ۔ ان کی مرتب کردہ سفارشات کو قانونی حیثیت دی جائے گی ۔ تاکہ معدومیت کے خطرے سے دوچار کالاش تہذیب و ثقافت اور آرکیٹکچر کو محفوظ بنایا جاسکے ۔ انہوں نے کالاش ویلیز میں غیر مقامی کاروباری لوگوں کی طرف سے کالاش کلچر سے متصادم تعمیرات کو علاقے کیلئے زہر قاتل قرار دیا ۔ اور کہا ۔ کہ کراکال بمبوریت میں اس قسم کے ایک ہوٹل کو ہم نے منہدم کرنے کی سفارش کی ہے ۔ جس پر عنقریب عملدر آمد کیا جائے گا ۔ ڈاکٹر عبد الصمد نے کہا ۔ کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان کی دلچسپی اور معاون خصوصی وزیر اعلی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کی کوششوں سے دس کروڑ روپے کی لاگت سے کالاش مقدس مقامات ، قبرستان اور ٹمپلز کو محفوظ بنانے پر کام جاری ہے اسی طرح اطالوی حکومت کے گرانٹ سے کالاش ویلی میں ووڈ کنزر ویشن پر کام کیا جا رہا ہے ۔ جس میں لکڑی کو محفوظ بنانے کے عمل سے گزارا جائے گا ۔ اسی طرح اپر چترال میں ایک میوزیم تعمیر کی جا رہی ہے ۔ ڈاکٹر عبد الصمد نے کہا ۔ کہ چترال میں آثاریات کے کئی ساءٹس موجود ہیں ۔ خصوصا آرین دور کے ساءٹس میں سینگور چکست نہایت اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار ساءٹس موجود ہیں ۔ جن پر کام کیا جانا چاہیے ۔ انہوں نے کالاش قبیلے کے اوریجن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ۔ کہ ہماری ریسرچ یہ بتاتی ہے ۔ کہ کالاش لوگ یہاں کے مقامی لوگ ہیں ۔ یہ سکندر اعظم اور اُن کی فوجیوں کی نسل نہیں ہیں ۔ کیونکہ سکندر اعظم اور ان کی فوجوں کا گزر چترال کی وادی سے ہوا ہی نہیں ہے ۔ چترال میں پندرہ سو قبل مسیح میں آبادی موجود تھی ۔ جبکہ سکندرا عظم کی فوج کشی تین سو قبل مسیح میں ہوئی ۔ اس لئے کالاش لوگوں کو یونانیوالنسل قرار دینا حقیقت کے بر عکس ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں فروغ سیاحت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں ۔ دہشت گردی اور کرونا نے سیاحت کو بہت نقصان پہنچایا ۔ تاہم اب حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال خصوصا کالاش ویلیز کی سیر کیلئے آنے والوں کو ایجوکیٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ تاکہ کلچر اور ماحول کو متاثر کئے بغیر سیاحت کا لطف اُٹھا سکیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ کالاش کلچر کے تحفظ کیلئے کئی اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔ جن کے علاقے اور سیاحت پر مثبت اثرات مرتب ہو ں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں