312

معاشرتی درجۂ حرارت

داد بیداد
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ریڈیو کی عالمی نشریات سے لیکر ملکی اخبارات، ٹیلی وژن اور سو شل میڈیا تک ہر قابل ذکر جگہ پر گویا ایک تھر ما میٹر لگا ہوا ہے تھر ما میٹر کو دیکھیں تو ہر ایک کا پارہ چڑ ھا ہوا ہے معا شرتی درجہ حرارت نقطہ ابال سے اوپر جا رہا ہے اگر سیا ست کے سٹیج پر گرما گرمی بڑھ چکی ہے تو مذہبی محا ذ پر گرما گر می کا عالم اور بھی تیز ہے ستمبر کے مہینے کو ستم گر بھی کہا جا تا ہے کیا اس سال یہ ستم گر کوئی نیا ستم ڈھا نے والا ہے؟ یا ایسے ہی گر ما گرمی دکھا نے کے بعد سب لو گ پرانی تنخوا ہ پر گذارہ کرنے لگ جائینگے؟ ہمارے استاذ مو لانا اورنگ زیب المعروف تبر گئے ملا ایک واقعہ سنا یا کرتے تھے یہ قدیم زمانے کی حکا یت ہے جب ہو ٹل نہیں تھے مسا فر مسجدوں میں رات گذار تے تھے ایک مسجد میں چند مسافر سورہے تھے کچھ نئے مسافر بھی آگئے نئے مسافروں میں ایک بوڑ ھا مسافر تھا جس کو کھا نسی کی شکا یت تھی مسجد کے اندر سوئے ہوئے مسافروں میں ایک پا گل بھی تھا جس کا تکیہ کلا م یہ تھا کہ ”کھا نسو مت، کھا نسی کی آواز آئی تو مار ڈالوں گا“ نئے مسافر ابھی سوئے نہیں تھے کہ ایک کونے سے آواز آئی ”کھا نسی کی آواز آئی تو مارڈالوں گا“ بوڑھا شخص پریشان ہوا ہر کھانسی کے بعد یہ آواز مسلسل آتی رہی جب تھوڑی دیر گذری تو ایک شخص اُ ٹھا، بوڑھے شخص کے قریب آیا اور اس کو بتا یا کہ بے خوف ہو کر کھا نس لیا کرو، یہ پا گل ہے ایسا ہی کہتا ہے اس کی پروا مت کرو، بوڑھے شخص کی جا ن میں جان آئی وہ کھانستا رہا اور دھمکی دینے والا ساری رات دھمکی دیتا رہا، سیا سی درجہ حرارت کا حال بھی ایسا ہی ہے کچھ لو گوں کا تکیہ کلام ہے ”حکومت کو چلتا کرو، نئے انتخا بات کراؤ ہم کو بھی آزماؤ“ حکومت کے کان میں کسی نے یہ بات ڈال دی ہے کہ غم مت کرو یہ اسی طرح کہتے رہینگے تم اپنا دھندہ جاری رکھو جب سیا سی ثقا فت، سیا سی تمدن اور سیا سی تہذیب کی بات آتی ہے تو ہمیں لا محالہ وہ مما لک یا د آتے ہیں جہاں ہمارے ملک کی طرح ہر چار سال یا پا نچ سال بعد انتخا بات ہو تے ہیں انتخا بی مہم ڈھا ئی مہینے چلتی ہے جو پارٹیاں ایک دوسرے کے مقا بلے پر آتی ہیں وہ جلسہ جلو س، ریلی وغیر ہ کے ذریعے اپنا پیغا م اور منشور لوگوں تک پہنچا تی ہیں گذشتہ 30سالوں سے جلسوں اور جلو سوں کی جگہ ٹیلی وژن اور سو شل میڈیا کے ذریعے اپنے منشور کو آگے بڑھا نے کا رواج عام ہو گیا ہے اندازہ یہ ہے کہ اگلے 20سالوں کے اندر دنیا میں جلسہ اور جلو س کی روایت ختم ہو جائیگی لیکن پا کستان کو دنیا جہاں میں آنے والی تبدیلیوں کی ہو ا نہیں لگی یہاں اب بھی 2کروڑ روپے جلسہ کرنے پر خرچ کئے جا تے ہیں 50لاکھ روپے کا سٹیج تیا ر کروایا جا تا ہے لو گوں کو کرایہ دے کر جلسہ گاہ تک لایا جا تاہے سٹیج پر 50بڑے لیڈروں کو بٹھا یا جاتا ہے 6گھنٹوں تک دھواں دھار تقریریں کروائی جا تی ہیں بے معنی اور خالی خو لی نعرے لگوا ئے جا تے ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ انتخا بات کے بعد جلسوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ جلسوں کا نیا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے کیونکہ حزب مخا لف اگلے انتخابا ت تک انتظار کرنے کے مو ڈ میں نہیں ہوتی اور سچی بات یہ ہے کہ حزب اقتدار بھی ارام اور سکون کے ساتھ اپنے منشور کو سامنے رکھ کر حکومت چلا نے کے مو ڈ میں بہت کم ہوتی ہے آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ کھڑا کر کے بھیڑ چال کے بہانے پیدا کر تی رہتی ہے گو یا بقول شاعر ”آگ ہے دونوں طرف برابر لگی ہوئی“ والا منظر ہو تا ہے بعض تجزیہ نگا ر کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کا سیا سی کلچر نا پختہ ہے اس میں پختگی نہیں آئی وقت کے ساتھ پختگی آئیگی اس کے مقا بلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ قیام پا کستان کو 73سال ہو گئے اگر اتنی لمبی مدت میں سیا ست کے اندر بلو غت نہیں آئی تو یہ بلوغت کب آئیگی؟ شاید کبھی نہ آئے سو یہ چوہے بلی کا کھیل ہے اور کھیل جاری رہے گا مبصرین اور تجزیہ کاروں کو زیا دہ فکر مذہبی درجہ حرارت کی ہے محرم کے پہلے 10دنوں کے ساتھ یو م عاشور گذرے نے کے بعد اسلام اباد اور کراچی کے دو نا خوشگوار واقعات کی باز گشت بد ستور سنا ئی دے رہی ہے یہاں تک کہ مفتی منیب الرحمن، مولا نا عادل خان اور مولا نا تقی عثمانی جیسے معدل،نرم خو اور صلح جو علماء نے بھی سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اس ردّ عمل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حالات کو معمول پر لانے میں وقت لگے گا یہ بات بیحد خوش آئیند تھی کہ عشرہ محرم خیریت اور امن و امان کے ساتھ گذر گیا اسلام اباد والے نا خوشگوار واقعے کا مر کزی کر دار اب لندن پہنچ گیا ہے البتہ کراچی والے نا خوشگوار واقعے کا مر کزی کردار ابھی تک ملک میں مو جود ہے دونوں طرف نظر دوڑائیں تو معتدل، صلح جو اور نرم خو علماء کی بڑی تعداد اب بھی صلح و صفا ئی کی راہیں تلا ش کر رہی ہے لیکن حا لات ان کے قا بو سے باہر ہونے میں دیر نہیں لگے گی وقت کا تقا ضا یہ ہے کہ حا لات بے قا بو ہونے سے پہلے پیش بندی کر کے حا لات پر قابو پا یا جائے ورنہ مذہبی درجہ حرارت سیا سی درجہ حرارت سے زیا دہ خطر نا ک ثا بت ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں