636

لواری پراجیکٹ کی وجہ سے کئی سنگین نوعیت کے مسائل سے دوچار ہوکر دربدر کی ٹھوکرکھانے پر مجبور ہیں لیکن این ایچ اے اور ضلعی انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں /عمائدین عشریت کااظہارخیال

۔چترال (نمائندہ ) لواری ٹنل پراجیکٹ سے متاثرہ چترال کے گاؤں عشریت کے عوام نے کہا ہے کہ وہ اس پراجیکٹ کی وجہ سے کئی سنگین نوعیت کے مسائل سے دوچار ہوکر دربدر کی ٹھوکرکھانے پر مجبور ہیں لیکن نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور ضلعی انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں جبکہ اس علاقے کے عوام نے اس میگاپراجیکٹ کے لئے مثالی قربانیاں دے کر اپنی معاش کے ذرائع سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ عشریت کے براڈام کے مقام پر چترال پریس کلب کے زیر اہتمام منعقدہ ‘پریس فورم ‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے علاقے کے عمائدیں احسان اللہ، مولانا شریف احمد، شیر احمد، عالم زیب، فضل الدین،ظفراللہ، نثار احمد، حاجی فضل سبحان، حاجی عمر خالق، رفیع اللہ اور دوسروں نے کہاکہ لواری ٹنل کے اپروچ روڈ کی تعمیر کے وقت گاؤں کے درجنوں ایریگیشن چینلزبند ہوکر رہ گئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ گزشتہ کئی سالوں سے فصل کاشت نہیں کرسکتے ہیں تو دوسری طرف ان کے میوہ دار اور غیر میوہ دار درخت بھی سوکھ گئے ہیں جوکہ ان کی معیشت کا بڑا حصہ تھا۔ ان کا شکوہ تھاکہ جب این ایچ اے حکام کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ابپاشی کی یہ نہریں ان کے نقشے میں نہیں تھے اور ضلعی انتظامیہ بھی اس سے اپنے آپ کو بری الذمہ قراد دیتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ لواری روڈ کی وجہ سے گاؤں کی واٹر سپلائی اسکیم بھی متاثر ہوگئی ہے اور بعض مقامات پر پائپ لائن پر پچاس پچاس فٹ ملبہ بھی گرادی گئی ہے لیکن لواری ٹنل پراجیکٹ انتظامیہ اس کی بحالی سے انکاری ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس روڈ کی تعمیر کے وقت مختلف مقامات پر مقامی پہاڑی پیدل ٹریک بھی متاثر ہوگئے ہیں اور روڈ پر کام کی وجہ سے اڑنے والی گردوغبار سے علاقے میں مختلف قسم کی بیماریاں لوگوں پر حملہ آؤر ہوئی ہیں اور کنسٹرکشن کمپنی والے پانی کا برائے نام چھڑکاؤ کرتے ہیں جبکہ سکول جانے والے طلباء وطالبات سب سے ذیادہ متاثر ہوتے ہیں جوکہ روزانہ اس روڈ پر 10کلومیٹر کے لگ بھگ فاصلہ کرتے ہیں اور موٹر گاڑیوں کے پہیوں سے اڑنے والی خاک ا ن کے کپڑوں پر بیٹھ جاتی ہے۔ عشریت کے عوام نے کہاکہ ان کی قربانیوں کو پس پشت ڈال دیتے ہوئے این ایچ اے حکام نے ابھی تک ایک بھی مقامی فرد کو پراجیکٹ میں بھرتی نہیں کی اور باہر کے اضلاع سے معمولی اسامیوں پر افراد کو یہاں بھرتی کئے جاتے ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ اہالیان عشریت کے ساتھ واپڈ ا حکام بھی سوتیلی ماں کی سلوک کررہی ہے اور ان کے زرعی زمینات، باغات اور چراگاہ سے گولین گول ہائیڈل پراجیکٹ کی ٹرانسمیشن لائن گزارے گئے لیکن انہیں معاوضہ ابھی تک نہیں ملا جس کے لئے وہ واپڈا ہاؤس لاہور اور ڈی سی چترال آفس کے درمیان گزشتہ تین سالوں سے چکر کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کو روکنے کا مطالبہ کیا اور کہاکہ نگہبانوں کو تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ہرے بھرے درخت بھی کٹ رہے ہیں لیکن محکمہ جنگلات خاموش ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی سخت تشویش کا اظہارکیاکہ چھ سال پہلے جنگلات کی مارکنگ ہوئی تھی لیکن رائلٹی کی تقسیم ابھی تک نہیں ہوئی اور یہ 23کروڑ روپے تقسیم کے لئے ڈی سی لویر چترال کے اکاونٹ میں پڑی ہے اور اس رائلٹی کے انتظار میں کئی لوگ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کاکہنا تھاکہ پہلے تو گاؤں والوں نے ٹھیکہ دار حاجی خائستہ رحمن کے ساتھ معاہد ہ کیا تھا جس نے مارک شدہ درختوں کی کٹائی اور ڈھلائی کرکے لکڑی کو چکدرہ کے ٹمبر مارکیٹ تک پہنچایا اور ایف ڈی سی نے چیک ڈی سی لویر چترال کو تقسیم کے لئے بھیج دیا لیکن اس مرحلے میں حاجی انعام اللہ نام کا اور ایک ٹھیکہ دار چند مقامی افراد کے ساتھ مل کر رائلٹی کے رقم کی تقسیم میں رخنہ ڈال رہا ہے۔ انہوں نے ڈی سی لویر چترال کو تنبیہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر ایک ماہ کے اندر اندر رائلٹی کی رقم عشریت میں تقسیم نہیں ہوئی تو علاقے کے عوام خواتین اور بچوں کے ساتھ ڈی سی ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے پر مجبور ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ لواری ٹنل روڈ کی تعمیر کے بعدڈیڑھ سو گھرانوں پرمشتمل زیارت گاؤں ایک سائیڈ پر رہ گئی ہے اور اس کے لنک روڈ کاکام این ایچ اے اپنے مینڈیٹ سے نکال دی ہے جس سے اس گاؤں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور معمولی بارش کے بعد بھی لنک روڈ کئی مہینوں تک خراب رہتی ہے اور اس علاقے میں آمدورفت بہت ہی مشکل ہوتی ہے۔ انہوں نے پولیس تھانہ کے عمار ت کے لئے زمین خرید کر مستقل عمارت کی تعمیرکا بھی مطالبہ کیا اور کہاکہ پولیس تھانہ کے لئے اپنی مستقل عمارت ضروری ہے۔ انہوں نے لواری روڈ سے متاثر بیسک ہیلتھ یونٹ اور گورنمنٹ ہائی سکول کے عمارتوں کی تعمیر کا بھی مطالبہ کیا جس کے معاوضے این ایچ اے نے متعلقہ محکمہ جات کو اداکردی ہے۔ انہوں نے عشریت میں زنانہ ہائی سکول، مردانہ ہائیر سیکنڈری سکول قائم کرنے اور پرائمری سکول کے لئے بلڈنگ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ چترال لیویز میں عشریت کے ویلج کونسلوں کے لئے بھی ملازمتوں میں کوٹہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ عشریت کے عوام نے گولین گول ہائیڈل پراجیکٹ سے بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ اس کے لئے لائن پہلے سے موجود ہے اور اسے صرف کنکشن دینے کی ضرورت ہے جبکہ ان کا شکوہ تھاکہ جب 1996ء میں چترال کو نیشنل گرڈ سے منسلک کیا جارہا تھا تو بھی اس گاؤں کو نظرانداز کیا گیا تھا اور اب بھی اسے نظر انداز کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ عشریت میں ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو جن مشکلات کا سامنا ہے، اس کا اندازہ ہر کوئی با اسانی کرسکتا ہے اور انجیکشن لگوانے کے لئے زیارت براڈام سے دروش کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے وٹرنری ہسپتال میں اسٹاف کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ کئی عرصے سے اس ہسپتال میں صرف ایک چوکیدار سے چلایا جارہا ہے جبکہ اس کے کمرے کرائے پر دئیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ محکمہ زراعت بھی اس علاقے سے مکمل طور پر لاتعلق ہے۔ عشریت کے نوجوانوں نے علاقے میں 4Gانٹرنیٹ سروس شروع کرنے کا بھی مطالبہ کیاجبکہ پی ٹی سی ایل کی ڈیجیٹل ایکسچنج یہاں سے منتقلی بھی قابل مذمت ہے۔ اس موقع پر جمال آباد نغر کے عمائیدین نے کالکٹک تا جمال آباد ایریگیشن چینل کے کام کو مکمل کرنے، گاؤں کے لئے بجلی کی ٹرانسفارمر کی منظوری دینے اور یہاں کی مڈل سکول کو ہائی کادرجہ دینے کا مطالبہ کیا۔ حاجی فضل الدین کاکہنا تھاکہ علاقے میں ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ سے ہر روز اس علاقے سے بچے بیس کلومیٹر پیدل چل کر عشریت آنے پرمجبور ہیں۔
چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین نے اس موقع پر کہاکہ دور دراز اور دورافتادہ علاقوں میں جاکر عوامی مسائل معلوم کرکے انہیں میڈیا کے ذریعے حکومت اور متعلقہ حکام کے نوٹس میں لانے کے لئے پریس فورم کا انعقاد کیاجاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عوامی مسائل کو تمام دستیاب میڈیا میں اجاگر کرنے میں چترال پریس کلب کوئی کسر نہیں چھوڑے گی تاکہ اس علاقے سے پسماندگی اور غربت کا خاتمہ ہوسکے۔ علاقے کے عمائیدین نے پریس فورم کے انعقاد پر پریس کلب کا شکریہ ادا کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں