645

تامرد سخن نگفتہ باشد۔۔۔۔۔تحریر:تقدیرہ خان

کہتے ہیں کہ انسان کی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ اسکی گفتگو سے ہوتا ہے۔ انسان کی زبان اُس کے علم، عمل اور کردار کی ترجمان ہوتی ہے۔ اُس کی زبان سے نکلا صرف ایک لفظ اُسے عظمت کی اونچائیوں سے گرا کر ذلت کی دلد ل میں دھنسا دیتا ہے۔بر ٹنڈرسل نے کہا کہ عقلمند دل پر لکھی تحریر پڑھتا ہے اور جاہل دوسروں کی لکھی تحریر کا غذ دیکھ کر پڑھتا ہے۔ طوطا جو سنتا ہے وہی بولتا ہے چاہے وہ گالی گلوچ ہی کیوں نہ ہو۔ انسان جو سوچتا ہے وہ ہی بولتا ہے۔ جاہل کی سوچ سطحی اور گھٹیا ہوتی ہے۔ وہ بولنے سے پہلے نہیں سوچتا اور بولنے کے بعد اپنی سفلی سوچ کادفا ع جاہلانہ انداز سے کرتا ہے۔ اُس کی سوچ منفی اور مضر ہوتی ہے چونکہ وہ شکر گزاری اور احسان مندی کی صلاحیتوں کا حامل ہی نہیں ہوتا۔تیمور تغلق کا مشہور قول ہے کہ احسان اللہ کی نعمتوں میں ایک بڑی نعمت ہے اور شکر گزاری عظیم انسانوں کی دستار ہے۔ حضرت محمد بخش ؒ کم عقلوں اور سطحی سوچ کے حامل لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
جس وچ گجی رمز نہ ہوئے درد منداں دے حالوں بہتر چپ محمد بخشا سخن اجہے نالوں
جس گفتگو میں عقل و خرد کی کوئی بات نہ ہو اور نہ ہی انسانوں کے دکھ درد کا کوئی ذکر ہو ایسی گفتگو سے بہتر ہے کہ انسان چپ ہی رہے۔ کاش ہمارے سیاستدان تجزیہ نگار، صحافی، دانشور اور اہل الرائے ٹیلی ویژن چینلوں اور سوشل میڈیا پر اپنی عقل و دانش کے موتی بکھیرنے سے پہلے سوچ لیا کریں کہ ان کی دانش، علمیت، عقلیت اور رائے کا چورن دلی، کابل، لندن اور واشنگٹن میں ہی کیوں بکتا ہے۔ آخر وہ ملک دشمنوں کے ہاتھوں آلہ کار کیوں بنتے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ ملکی مفاد قومی عزت و وقار کے کیامعنی ہیں؟ اگر وہ دولت کمانے، شہرت حاصل کرنے اور اپنے ذاتی مفاد ات کے لیے ایسا کر رہے ہیں تو وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ ایسے لوگوں کو ملک دشمن،نہنگ ملت اور نہنگ دین کہا جاتا ہے۔
ایسے لوگوں کے ترجمان اور ہم خیال علمائے کرام یقیناً عیب و ہنرش، نہفتہ باشد کا مطلب جاننے کے باوجود ان کی صفوں میں شامل کیوں ہیں۔ اس سوال کا جواب ہر شہری جاننا چاہتا ہے مگر جواب دینے والوں کو پتہ ہی نہیں کہ ووٹر کی بھی کوئی عزت ہے۔
دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کا آل پارٹی کانفرنس سے خطاب الطاف حسین کے خطاب سے مختلف نہیں۔ الطاف حسین نے بھارت جا کر اپنے پارٹی ممبروں اور بھارتیوں سے جو خطاب کیا تھا اور جس طرح بھارتی اور مغربی میڈیا نے اسے اچھالا تھا میاں نواز شریف کے خطاب کو بھی پاکستان دشمن میڈیا نے اس طرح پیش کیا ہے۔پاکستان میں ایم کیوایم کے رہنماؤں نے جسطرح الطاف بھائی کے خیالات کی ترجمانی کی اور برائی کوبڑھائی کے لبادے میں پیش کیا بلکل ویسے ہی مسلم لیگ نواز کے رہنما اور ترجمان میاں نواز شریف کے الفاظ کی تشریح اور ترجمانی کر رہے ہیں۔ ملکی میڈیا بڑی حدتک خاموش ہے اور لیگی میڈیا اسے نواز شریف کی دانش اور وطن سے محبت کی ترجمانی قرار دے رہا ہے۔ بھارتی میڈیا نے اسے میاں نواز شریف کی سیاسی جدوجہد اور آمریت کے خلاف سخت ری ایکشن قرار دے کر انہیں بھارت دوست دانشور اور سیاسی لیڈر بناکر پیش کیا ہے۔ بھارتی دانشوروں اور میڈیا کاتجزیہ سو فیصد درست ہے چونکہ کوئی بھی پاکستانی سیاستدان مودی جیسے پاکستان اور اسلام دشمن درندے اور لاکھوں مسلمانوں کے قاتل کو پیلی پگڑیاں پہن کر اپنے گھر پر دعوت نہ دیگا اور نہ ہی مودی کے ترجمان جندال کو ملکی سلامتی کے قوانین کوبالائے طاق رکھتے ہوئے خفیہ مشن پرمری آنے کی دعوت دے گا۔ جنرل پرویز مشرف نے کٹھمنڈو میں واجپائی سے ہاتھ ملا کر ساری دنیا کو ششدرہ کر دیا تھا مگر نواز شریف نے کٹھمنڈو جار کر بھارتیوں سے خفیہ ملاقاتیں کیں جسے جاننے کی کسی نے کوشش ہی نہ کی۔
سگمنڈ فرائڈ کہتا ہے کہ جو شخص ایک ہی سطحی پر سوچنے کا عاد ی ہو اور اُسکے رویہ میں لچک نہ ہوا سے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز نہ کیا جائے چونکہ کوئی بھی شخص اپنی سوچ کے مطابق ساری دنیا کا نظام اکیلے نہیں چلا سکتا۔ ایسا شخص سوچ اور خواہشات کا اسیر اور نفسیاتی مریض ہوتا ہے۔ جولائی 2014ء کے ایک مضمون بعنوان The Builder of Sandcastlesمیں جناب افتخار مرشد میاں نواز شریف کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
Prime Minster Nawaz Sharif is a dreamer of unreal dreams. He is builder of sandcastles. That are swept away by the angry waves of the Turbulent sea.
سگمنڈ فرائڈ اور افتخار مرشد کا تجزیہ در حقیقت ہمار اقوم المیہ اور اجتماعی شعور کے زوال کی کہانی ہے۔ اس قوم پر امریکہ نے غلام محمد جیسا ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مفلوج گورنر جنرل مسلط کیا تو عوام نے اسے بھی قبول کر لیا۔ جنا ب زرداری تو اپنی ذہنی کیفیت کا سرٹیفکیٹ سوئس عدالت میں پیش کر چکے ہیں اور میاں نواز شریف کی ذہنی کیفیت ان کی عقل، سوچ اور کلام شیریں سے عیاں ہے۔ اس مضمون میں افتخار مرشد لکھتے ہیں کہ میاں نوازشریف کا خیال ہے کہ اپنے حواریوں اور خاندان کے افراد میں ملکی خزانہ بانٹنے سے ملک امیر (ایشین ٹائیگر) اور قوم خوشحال ہو جائے گی۔ نواز شریف کو سمجھ ہی نہیں کہ اسطرح، غربت بڑھے گی، ملکی معیشت کمزور ہوگی اور قوم ہر لحاظ سے مفلو ج ہو جائے گی۔ دہشت گردی اور قانون شکنی کا رحجان بڑھ جائیگا اور آنیوالی کوئی بھی حکومت اسکا مداوہ نہ کر سکے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں