473

معاشرے میں ٹیکنالوجی کا کردار۔۔۔۔۔۔۔۔ندیم سنگال

جنگل میں مور ناچنا کس نے دیکھا ہے۔یہ محاورہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔بلاشبہ گذشتہ زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا کہ جنگل میں مور ناچتا تو تھا مگر اسے دیکھنے والے ما سوائے جنگلی نباتات و حیوانات کے اور کوئی ذی روح نہ ہوتی تھی مگر وہ گئے وقتوں کی بات تھی آج تو عام جنگل چھوڑ انسانی جسم کے اندراعضاء کی حرکات تک دیکھ سکتے ہیں -حضرت انسان کی تہذیب و تمدن کی حدود میں پہنچنے سے قبل کے دور میں پیغام رسانی قریبا نہ ہونے کی برابر تھی-اس کی غالبا ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے انسان کو پیغام رسانی کی کچھ خاص ضرورت ہی نہ تھی۔رفتہ رفتہ بیداری شعور نے انسانی تہذیب و تمدن اور رین سہن پر اثر انداز ہونا شروع کیا۔انسان نے بستیاں بسانی شروع کی اور زباں کی بنیاد پڑی۔جب زبان بنی اور بستان بسی تو نظام مواصلات بھی وجود میں آنے لگا۔دھول یا طبل ایجاد ہوا جس کی تھاب میں ہربستی بستی پیغام پہنچایا کرتی تھی۔پھر اس ضمن میں آگ،دھوان اور منعکس روشنی کا استعمال ہونے لگا۔رفتہ رفتہ نظام مواصلات بنی نوع انسان کی بنیادی ضرورتوں میں مقام بناتا گیا۔یوں طبل کی تھاپ سے شروع ہونے والا یہ سفر روشنی کی میناروں،پیغام رساں کبوتروں،منادی کرنے والی ہرکاروں،گھڑسوار ایلچیوں،مورس کوڈنگ ٹیلیگراف،ٹیلی فون۔ٹیکسس سے ہوتا ہوا۔فائبرابٹک مواصلاتی سیاروں اور انٹرنیٹ تک پہنچادی۔آبی یہ سفر ختم نہیں ہوا بلکہ اس میدان میں اب بھی سائنسدان اپنے تجربہ گاہوں میں دن رات نت نئی ایجادات کرنے میں مصروف ہیں۔جدید ذرایع ترسیل یا ابلاغ نے فاصلوں کو اس قدر سمیٹ دیا ہے کہ دنیا کو ایک گاؤں یا گلوبل ویلج سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ٹیکنالوجی کیا کر سکتا ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جو اکثر عام آدمی کے زہن میں اٹھتا ہے۔اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی وہ کچھ کر سکتا ہے جو ہمارے تصور میں بھی نہ ہو۔ٹیکنالوجی اچھے کو بہت اچھا اور بْرے کو بہت بْرا،بہت بْرے کو بہت اچھا،سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ،ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم،ملزم کو معصوم اور معصوم کو ملزم ثابت کرنے میں جیسے کارنامے دیکھنے آئے روزملتے ہیں۔
ٹیلی ویڑن ایک ایسی کھڑکی کی مانند ہے جو ہمارے باپردہ گھرانوں کے اندر کھولتی ہے اور ایک بار کھول جانے پر ہمارے مشرقی خیالات رکنے والے اہل خانہ کو پردے ہی پردے میں مغرب کے زرق برق اور ہوش ربا طرز زندگی کی مفصل اور جامع با تصویرو باصوت جھلک دیکھائی دیتی ہے۔بلکہ پوشیدہ سبق بھی خوب یاد کرواتی ہے۔اس سبق کا عملی نمونہ آپ آج کل کی نوجوان نسل کے شوق تقلید مغرب میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس میں قصور ٹیکنالوجی کا نہیں ہے۔اگر آج ترقی کرنی ہے تو ٹیکنالوجی کا استعمال ہمارے لئے لازم و ملزوم ہیں۔اس میں قصور اس طبقے کا ہے جو اپنا منفی ایجنڈا پھلانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں یا پھر قصور ہمارا اپنا ہے کہ ہم اچھے برے میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ہماری تباہ کا سامان ہے۔حکیم الامت کا فرمان ہے:
اپنی ملت پر قیاص اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رصول ہاشمی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں