314

جنت کے پھول……… تحریر: اقبال حیات اف برغذی

پھول کلیوں سے مجھے پیار ومحبت ہے لوگو

بچہ  دشمن کابھی لخت  جگر  لگتا  ہے  مجھے

اس تصور کے مہک سے احساسات کی دنیا کے معطر ہونے کے بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ بلاشبہ بچے گلشن زیست کے وہ پھول ہیں جن پرنظر پڑتے ہی دل کی دنیا میں بہار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔بچے کے چہرےپر نظریں پڑتے ہی دل میں بہار کے کیفیت پیدا ہوتی ہے۔بچے کے چہرے سے نظریں ٹکراتے ہی لب پر مسکراہٹ  اور پیار کے الفاظ  بے ساختہ پید اہوتے ہیں۔اور ہاتھ اس کے سرپرپھیرنے کے لئے اٹھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔توتلی  زبان میں منہ سے  نکلتے ہوئے ہر رنگ کے بول کو سراہنے کے لئے توصیفی الفاظ کے ساتھ سر ہلنے لگتا ہے۔اور آغوش محبت میں لینے کے لئے دونوں بازو خود بخود پھیلنے لگتے ہیں۔ اس لئے میرے عظیم پیغمبرﷺ نے بچوں کو جنت کے پھولوں کے لقب سے نوازے ہیں۔ اور بچوں سے پیار نہ کرنے والوں سے اپنی برات کا اعلان فرماتے ہیں۔ بچہ عام طور پر زندگی کے قواعد وضوابط  سے ناآشناء اور دنیا ومافیہا سے بے خبر ہونے کی وجہ سے بسا اوقات ہر وہ کام کر گزرتا ہے۔ جو عام طور پر معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر تربیت دینے والوں پر لازم ہے کہ وہ ایسا انداز اور طرزعمل اختیار نہ کریں۔ جن سے ان کے نازک  اور پاک دل کو ٹھیس پہنچے ۔انہیں اپنے حسن وسلوک کے ذریعے غلط کام سے روکھنے اور اچھے طرز عمل کی ترغیب دلائی جاسکتی ہے۔ انہیں ہر وقت سختی کی کسوٹی پر کس کر رکھنے سے بچہ خود اعتمادی کے وصف سے محروم ہوکر زندگی بھر احساس کمتری کا شکار رہے گا۔ عام طور پر ہمارے معاشرے میں بچوں کی تربیت کے معاملے میں زبان کی کڑواہٹ ،درشتگی اور سختی کے عمل کو بروئے کار لایا جاتاہے۔جس کی وجہ سے معاشرے میں اولاد کی نافرمانیوں او بے رہرویوں کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر بچوں کو تعریفی جملوں سے نوازاجائے گا۔ اور مثبت کاموں کی طرف رغبت دلائی جائیگی ۔تو اس کے اندر تعمیری سوچ جنم  لے کر کوئی اچھا کام کرکے اپنے بڑوں کو خوش کرنے کی کوشش کریں گے۔

اولاد کی بنیاد ی تربیت میں گھر کے ماحول اور دوسرے ہم نشین  بچوں کی خصلت کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے۔ جس گھر کے افراد جس نوعیت کے ہونگے۔اس میں پروروہ بچے کا اس سے رنگ لینا مسلمہ حقیقت ہے۔اور اس طرح ہم صحبت بچوں کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور کردار کے اثرات کو بھی نظرا نداز نہیں کیا جاسکتا۔اس سلسلے میں والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کو زیر نظر رکھیں۔ اور ان سے غفلت کا ارتکاب نہ کریں۔ ورنہ” یکہ لخط راغافل گشتم صد سالہ راہم دورشد ” کے مصداق ناقابل  تلافی خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بسا اوقات والدین اپنے مذموم افعال یعنی سگریٹ نوشی،نسوارخوری وغیرہ میں بالواسطہ  بچوں کو شامل کرتے ہیں۔اور ان کے ذریعے مذکورہ ناپسندیدہ اشیاء کو دکان سے منگوانا اس قبیح عمل کے بارے میں ان کے نازک دل میں نرم گوشہ پیداکرنے کے مترادف ہوگا۔

یہ ایسے عوامل ہیں۔ جن پر عملداری سے بچوں کی صورت میں گلشن زیست کے پھولوں کی آبیاری کی جائے گی تو ان کی مہک سے معاشرے کا معطر ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں