335

لیویزفورس اوراس کی مشکلات۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

برصغیر پاک وہند پر جب انگریزوں کی حکمرانی تھی توقبائلی علاقوں سمیت صوبہ بلوچستان اور شمال مغربی سرحدی صوبہ (سرحد)کے بعض علاقوں میں انتظامی امورچلانے ،امن وامان برقراررکھنے ،شاہراہوں کی حفاظت اورسرکاری سطح پر مخبری کی غرض سے 1902ء میں لیویز فورس قائم کی گئی تھی جوبشمول وفاق کے زیر انتظام ’’قبائلی علاقہ جات‘‘ کے خیبرپختونخوا کے زیرانتظام بعض علاقوں میں تاحال قائم ہے اوراس کو وفاق کنٹرول کرتاہے البتہ اس فورس میں کچھ بھرتیاں صوبے نے بھی کی ہے جوبتایاجاتاہے کہ صوبائی حکومت کی زیرنگرانی ہے ۔ صوبہ خیبرپختونخوامیں جن اضلاع کے اندر لیویز فورس موجود ہے ان میں دیر لوئر دیر اپر، سوات،چترال اور مالاکنڈ کے اضلاع شامل ہیں۔ اگرچہ ان علاقوں میں سرکاری انتظامی معاملات اورقیام امن کے عمل میں لیویزفورس پولیس اور دیگرسیکورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دیتی ہے اور چیکنگ کے لئے قائم چیک پوسٹوں سے لے کراہم سرکاری عمارات کی سیکورٹی پر مامور لیویزاہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہمہ وقت کوشاں اور اپنی موجودگی کااحساس دلانے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں اس کے باوجوداگرکہاجائے کہ لیویز فورس بالخصوص وفاق کے زیر انتظام لیویزفورس کے ساتھ سالوں سے حکومتوں کی جانب سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیاجارہاہے تو شائد غلط نہیں ہوگاکیونکہ لیویز فورس کے اہلکاروں سے ڈیوٹی تولی جارہی ہے تاہم ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ ہورہاہے نہ ان کوترقی مل رہی ہے اورنہ ہی ان کودیگر سرکاری ملازمین کی طرح مراعات دیئے جارہے ہیں ۔یہاں سپاہی سے لے کر لیویز کے صوبیدارمیجرتک تمام اہلکارمراعات سے محروم ہیں۔ بتایاجاتا ہے کہ 1969ء میں جب الحاق کرکے ریاست دیر پاکستان میں ضم ہوگیاتویہاں پولیس تعینات کرنے کے باوجود لیویزکی حیثیت کوبھی برقرار رکھاگیاجبکہ1977ء میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تواس وقت کے وفاقی وزیرمرحوم حنیف خان کی کوششوں کی بدولت لیویزفورس کوپنشن اور گریجویٹی سے نوازاگیاجس کے نتیجے میں سپاہی سے لے کر صوبیدارمیجر تک اہلکاروں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔قابل ذکر امریہ ہے کہ 2010میں جب پیپلزپارٹی دوبارہ برسراقتدارتھی تووفاقی وزیرسیفران نجم الدین خان کی کوششوں کے مرہون منت لیویزفورس کے لئے نئے سروس سٹرکچر کی منظوری دی گئی جس کے مطابق سپاہی کو سکیل پانچ،لارنس نائیک سے حوالدارتک سکیل آٹھ،نائب صوبیدارکا سکیل گیارہ،صوبیدارکے لئے 13جبکہ صوبیدارمیجر کے لئے سکیل سولہ کی حد اوراس نئے سروس رولزکی روشنی میں اہلکاروں کی مدت ملازمت 37سال مقررکردی گئی جو اس سے قبل 25سال تھی۔دوسری جانب بے روزگاری پر قابوپانے اورتعلیم یافتہ نوجوانوں کوروزگارکے ذرائع فراہم کرنے کی غرض سے پانچوں اضلاع میں سینکڑوں کی تعدادمیں نئی بھرتی بھی کی گئی جبکہ نئے بھرتی ہونے والے لیویز سپاہیوں کو ایف سی اور پاک فوج نے تربیت بھی دی یوں اس فورس کوباقاعدہ حیثیت دی گئی۔مگر وجود رکھتے حقائق یہ ہیں کہ اس تمام عمل کے باوجود لیویز فورس کے اہلکارگوں ناگوں مشکلات اور مسائل کے شکار ہیں۔ان کی تنخواہیں کسی بھی سرکاری محکمے کے اہلکاروں کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں اور تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں کیاجاتا۔کسی بھی جگہ ڈیوٹی انجام دینے والے لیویزاہلکاراپناخرچ خوراک خود اٹھاتے ہیں سروس سٹرکچرکے اندروہ جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں ان کوآگے جانے کا کوئی راستہ نہیں مل رہاہے کیونکہ عرصہ دراز سے کے ان کی محکمانہ ترقیاں رکی ہوئی ہیں ۔بتایاجاتاہے کہ کئی لیویزاہلکار فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید بھی ہوچکے ہیں جن کے لئے شہید پیکیج کااعلان توکیاگیاہے مگرمبینہ طورپر تاحال ان کے ورثاء کوکچھ بھی نہیں ملاہے۔اس فورس کے سپاہی کی تنخواہ 12سے 14جبکہ صوبیدارمیجر کی تنخواہ 20سے 25ہزارروپے ماہانہ بتائی جاتی ہے جب کہ جائزہ لیا جائے تو اس سے زیادہ تنخواہ توپولیس فورس کاایک سپاہی وصول کرتاہے ۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ سرکاری فورس ہونے کے باوجود لیویزاہلکاروں سے ان کے ذاتی اسلحہ لائسنس کی تجدید کے لئے ایک ہزار روپے فیس لی جاتی ہے حالانکہ دوسرے کسی بھی سرکاری محکمہ کے ملازم سے اس مد میں محض دوسو روپے فیس لی جاتی ہے دوسری جانب یہ بھی بتایاجاتاہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوانے صوبائی حکومت کے زیرانتظام لیویزاہلکاروں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیاہوا ہے یوں ان کی کی تنخواہیں وفاق کے زیرانتظام لیویزسے دگنی ہیں جبکہ ان کے دیگر مراعات کوپولیس فورس کے برابر کردیاگیا ہے لیکن جو لیویزفورس وفاق کے زیر انتظام ہے اس کاکوئی پرسان حال نہیں۔ اس صورتحال کے باعث لیویز اہلکاروں کو سخت پریشانی کاسامناہے جبکہ اس معاملے میں اٹھتے اور جواب طلب سوالات یہ ہیں کہ اگر یہ وفاق کے زیرانتظام فورس ہے تواس کی کمانڈڈپٹی کمشنر کے پاس کیوں ہوتی ہے کیونکہ وہ تو صوبے کانمائندہ ہوتاہے جبکہ لیویزفورس کو وفاق کی وزارت سیفران کنٹرول کرتی ہے۔یہ کہ اگرڈپٹی کمشنر اس فورس کی کمانڈکرتاہے توپھر اس کے اہلکاروں کے مسائل حل کرانے کی خاطر کوئی معقول راستہ کیوں نہیں نکالتے۔یہ کہ اگر واقعی اٹھارویں ترمیم کے بعد لیویزفورس کاانتظام صوبے کودیاگیاہے توپھر ان کی تنخواہوں میں اضافہ اور مراعات کی فراہمی سے متعلق یہ معاملہ وفاق کے ذمہ کیوں ڈالاجاتا ہے۔یہ کہ اگر یہ فورس وفاق کے زیرانتظام اور زیر نگرانی ہے تو اس سے صوبائی معاملات میں خدمات کیوں لی جاتی ہیں جبکہ اس اہلکاروں کوکوئی معاوضہ بھی نہیں دیاجاتا۔یہ کہ لیویز فورس میں ترقیوں کاعمل کیوں رکاہواہے اور اس کاکوئی احساس وادراک کیوں نہیں کیا جارہاہے۔اٹھتاسوال یہ بھی ہے کہ مبینہ طورپر مدت ملازمت ختم ہونے کے باوجودبعض اہلکاراپنے منصب پر براجماں کیوں ہیں کیاانہیں اعلیٰ حکام کی آشیرباد حاصل ہے یایہ تصورکیاجائے کہ اس فورس کاکوئی والی وارث ہی نہیں ہے یہاں کیاکچھ ہوتاہے اور کس طرح ہوتاہے کسی کوکوئی علم ہی نہیں ہوتا۔اور ایسے کئی سوالات اور بھی ہیں۔ بہرحال معاملہ چاہے وفاق کاہویا صوبے کاتاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ لیویزفورس کے اہلکاروں کے مسائل مستقل بنیادوں پر حل کرانے کے متقاضی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں