417

گھنٹی کون باندھے گا۔۔۔۔۔۔تقدیرہ اجمل

یہ کہانی ہم سب نے پڑھ رکھی ہے کہ چوہوں کی مجلس میں فیصلہ ہواکہ اگر بلی کی گردن پر گھنٹی باندھ دی جائے تو ہمیں اس کی آمد کا پتہ چل جائیگا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی چوہے اپنے بلوں میں گھس جائینگے اور بلی کے حملے سے محفوظ رہینگے۔ مجلس کے آخر میں پوچھا گیا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ یہ سن کر سب پر سکتہ طاری ہوگیا اور کوئی بھی یہ رسک لینے کو تیا ر نہ ہوا۔
ہماری بیوروکریسی ایک ایسا خونخوار بلا ہے جو ہمارے ہی خرچے پر نہ صرف پل رہا ہے بلکہ حکومت بھی کررہا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور اہل الرائے اکثر شکوہ کناں رہتے ہیں کہ عدالتیں اور نوکر شاہی کا نظام ہمیں ورثے میں ملا ہے اور نوکر شاہی انگریز کی پروردہ ہے۔ کسی بھی سطح پراپنی کم ہمتی، کم عقلی او رکم فہمی پر پردہ ڈالنے کا بہتر اور آسان نسخہ اپنی ناکامی کا ملبہ کسی اور پڑ ڈالنا اور اُسے مورد الزام ٹھہرانا ہے۔ اگر ہمارے سیاسی ادارے مضبوط اور سیاستدان زیرک، عوام دوست اور پر ہمت ہوتے تو وہ سب سے پہلے سول سروس اور عدلیہ پر توجہ دیتے۔ بد قسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کی پہلی نسل کا تعلق جاگیر دار طبقے سے تھا، دوسری نسل میں نودولیتے خاندان میدان سیاست میں آئے اور تیسرا طبقہ جرائم پیشہ اور مافیا کے کھیت میں پروان چڑھ کر سیاست کی منڈی میں آگیا۔ سیاست کے تینوں طبقات کی تربیت نوکر شاہی نے کی جس کی وجہ سے وہ نہ صرف ایک دوسرے کی ضرورت بلکہ مجبوری بن گئے۔ ضروریات او رمفادات کے پیش نظر رشتہ داریاں قائم ہوئیں تو سیاست اور غلاظت کا فرق مٹ گیا۔ سیاستدانوں اور اُن کی رشتہ دار بیورکریسی نے ملکر جرائم کی آبیاری کی جس کی وجہ سے ساری سیاسی اور حکومتی مشینری پر کرپشن، بد دیانتی، اقربأ پروری، سست روی، بے حسی اور عام آدمی سے نفرت کا زنگ چڑھ گیا۔ سیاسی خاندانوں کی طرح نوکر شاہی کے قبیلے اور خاندان بن گئے۔ اعلیٰ سرکاری افسروں کے بیٹوں، بھتیجوں اور دامادوں نے سول سروس کے نمائشی امتحان دیے اور اپنی خاندانی سیٹوں پر براجمان ہوگئے۔ اعلیٰ سول افسروں کی دیکھا دیکھی جرنیلوں نے بھی اپنے بیٹے اور داماد لیٹر ل انٹری کے ذریعے سول اداروں میں کھپا کرسوں ملٹری ریلیشن کی عمدہ مثال پیش کی۔
یہ ایک طویل داستان ہے جس پر عمیرہ احمد نے دو صیغم کتابیں لکھیں کہ کرپشن کے بیج سے کرپشن کا پودا کس طرح پروان چڑھتا ہے اور پھر پھلدار درخت بن کر اپنے گھرانوں کو خوشحال کر دیتا ہے۔
بھٹو سے پہلے ایوب خان اور یحییٰ خان نے سرول سروسز میں اصلاحات کی طرف توجہ دی مگر بیورو کریسی اور سیاسی اشرافیہ نے اسے ناکام بنا دیا۔ اصلاحات کی آڑ میں انتقامی کارروائیاں شرو ع ہوگئیں۔کرپٹ افسر تو اپنی رشتہ داریوں اور اعلیٰ سطحی تعلقات کی وجہ سے بچ گئے مگر جن کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا ان کے ہمراہ اچھے افسر بھی رگڑے گئے۔ ریٹائرڈ کمشنر شوکت علی شاہ نے طویل عرصہ تک بلوچستان میں نوکری کی وہ اپنی یاداشتوں میں اکثر بلوچستان کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک مضمون میں لکھا کہ جہانگیر خان ترین کے والد کوئٹہ میں ڈی آئی جی تھے اور وہ دور بھٹو کا تھا۔ ترین صاحب انتہائی شریف النفس اور مہمان نواز انسان تھے۔ آپ میں روایتی پلسیوں اور بیورو کریٹ رعونت کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ کوئی بھی شخص انہیں دفتر اور گھر میں مل سکتا تھا۔وہ ہر کسی کی سنتے اور جائز شکایات کا ازالہ بھی کرتے تھے۔ ترین صا حب کی نفاست سے بھٹو نالاں تھے چونکہ وہ کسی سیاستدان کے آلہ کار نہ بنتے تھے۔ بھٹو دور میں جن کرپٹ لوگوں کو نوکری سے نکالا اُن میں اللہ بخش ترین بھی شامل تھے۔
میانوالی سے تعلق رکھنے والے ڈی ایس پی غلام محمد نیازی نے مولاناکوثر نیاز ی کو کسی جرم کی پاداش میں گرفتا کیا جس پر مولانا کو کم از کم دس سال سز ا ہوسکتی تھی۔ یہ مولانا کی طالب علمی کا دور تھا۔ان کے والد انتہاہی غریب سکول ماسٹر تھے اور پارٹ ٹائم گھروں میں جا کر ڈاک تقسیم کرتے تھے۔ڈی ایس پی نیازی نے مولانا کے خلاف پرچہ تو درج نہ کیا مگر مرمت خوب کی۔ مولانا نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرینگے۔اس شرط پرانہیں تو چھوڑ دیا گیا مگر جب وہ بھٹو کے وزیر بنے تو کرپٹ افراد کی لسٹ میں اپنے دیگر مخالفین کے ہمراہ ڈی ایس پی نیازی کو بھی رگڑ دیا۔ وزیراعظم عمران خان کے والد اکرم اللہ خان نیازی کے بھائی ظفر اللہ خان نیازی، امان اللہ خان نیازی، کرنل فیصل اللہ خان نیازی اور ان کے قریبی عزیزکرنل اسلم خان نیازی محترمہ فاطمہ جناح کے حامی تھے۔ ایوبی دور حکومت میں اکرام اللہ نیازی پی ڈبلیو ڈی مغر بی پاکستا ن کے چیف انجینئرتھے اور نواب کالا باغ گورنر مغربی پاکستان تھے۔ اکرام اللہ خان کے خلاف چارچ شیٹ تیار ہوئی تو انہیں گورنر ہاؤس طلب کیاگیا۔اکرام للہ نے اپنے بھائیوں سے مشورہ کیا اور گورنر کے سامنے پیش ہو کر برطرفی کا حکم سننے کے بجائے استعفیٰ دے دیا۔
جنرل پرویز مشرف نے عوام دوست اور اچھی حکومت کا سوچا تو برطرفیوں کے بجائے مانیٹرنگ سسٹم متعارف کروایا تاکہ بیوررکریسی کو سیدھے راستے پر ڈال کر ان ہی سے کام لیا جائے۔ یہ ایک اچھی کوشش تھی جس کے سب سے عمدہ نتائج KPK میں ظاہر ہوئے۔ لوگ دھڑا دھڑ مانٹیرنگ والوں کے دفتر آتے اور درخواستیں پیش کرتے۔ یہی درخواستیں متعلقہ محکموں کو بھجوائی جاتیں اورچند دنوں میں لوگوں کے مسائل حل ہوجاتے۔اس سسٹم کی سب سے زیادہ مخالفت پنجاب میں ہوئی چونکہ پنجابی بیوروکریٹ اس طرح کے کام کے عادی نہ تھے۔ جرنل خالد مقبول نے پنجاب والوں کو ناراض کرنا مناسب نہ سمجھا اور جان بوجھ کر اس سسٹم کو سست روی کا شکار کر دیا۔ اسی طرح سندھ میں ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی نے بیوروکریسی کا ساتھ دیا اور سسٹم کو نا کام بنا دیا۔ بلوچستان میں قبائلی نظام ہی جمہوریت تصور کی جاتی ہے۔ وہاں کا مانیٹرسردار اور وڈیرا ہے اور لوگ اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ آزادکشمیر سے بھی کچھ اچھے نتائج آئے مگر حکومت نے اُسے اپنے کام میں مداخلت سمجھا۔آزادکشمیر میں جب بھی اصلاحات کی بات ہو تو اسے تحریک آزادی کشمیر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مانیٹرنگ سسٹم کی مخالفت میں مسلم کانفرنس اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے سخت بیان دیے کہ یہ ریاست کے نظام میں مداخلت ہے۔ اسطرح کی کوششوں سے دوسر ی جانب یعنی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو غلط پیغام جائیگا۔ عدلیہ اور سول سروس کی اصلاحات کو گھاگ بیورو کریسی نے آگے نہ چلنے دیا۔ نئے بلدیاتی نظام اور پولیس اصلاحات پر کچھ کام ہوا مگر کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ بلدیاتی نظام اور پولیس اصلاحات کی ایک الگ کہانی ہے جس پر مفصل تحریر کی ضرورت ہے۔ پولیس اصلاحات پولیس والوں نے تیارکیں اور سارے ملک کو پولیس سٹیٹ میں بدل دیا۔ اسی طرح بلدیاتی نظام میں بھی بد نیتی کا عنصر شامل کیا گیا تاکہ بات آگے نہ بڑھے۔ مرحوم پیر صاحب پگاڑا ملکی نظام کو بلی چوہے کے کھیل سے تشبیہ دیتے تھے۔ چوہے کچھ بھی کرلیں وہ بلی کے گلے میں گھنٹی نہیں باندھ سکتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں