325

ہمارے قبائلی اضلاع اب قومی دھارے میں مکمل طور پرشامل

نغمہ حبیب

ہمارے قبائلی علاقے ہمارے ملک کے بازوئے شمشیر زن ہیں اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب بھی ضرورت پڑی یہ نہتے بھی ملک کی حفاظت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کی پہلی جنگ تو انہی مجاہدین نے لڑی اور کشمیر کی آزادی کا سہرا اپنے سر باندھا یہی قبائلی مغربی سرحد پر چوکس کھڑے رہے اور اسی لیے ہماری یہ سرحد بغیر باقائدہ فوج کے بھی محفوظ تصور کی جاتی رہی۔ قیام پاکستان سے ہی یہ قبائلی پاکستان کے وفادار بلکہ انتہائی وفادار رہے ہیں۔ قائداعظم کے قبائلی علاقوں کے دورے کے موقع پر ان کے فقید المثال استقبال سے لے کر اب تک یہ قبائلی ہر قسم کے ملک دشمن عناصر کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے اور پاکستان کی عزت وتوقیرکا باعث بنے ہیں لیکن بیچ میں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ یہی قبائلی علاقے دشمن کی سازشوں کی آماجگاہ بن گئے تھے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی طویل جنگ میں نہ صرف یہ علاقے بری طرح متاثر ہوئے بلکہ یہی سے دہشت گرد بن بن کر نکلتے رہے اور پورے ملک میں فساد پھیلایا جاتا رہا اورملک کا امن ہر وقت داؤپر لگا رہا۔ انہی علاقوں میں دشمن بارود اور آگ کی فیکڑیاں بناتے رہے اور افغانستان کے راستے یہاں دہشت گردوں کو داخل کیا جاتا رہا اور اب بھی جب بھی موقع ملتا ہے ایسا کر لیا جاتا ہے۔ اسی مداخلت کے پیش نظر پاکستان کو اپنے محدود وسائل میں طویل پاک افغان سرحد پر خار دار تار لگانا پڑی تاکہ اس مداخلت کو روکا جاسکے تاہم اب بھی افغان مہاجرین کی موجودگی کی وجہ سے ہم مکمل طور پر محفوظ نہیں کیونکہ ان مہاجرین کے ساتھ ساتھ ملک دشمن عناصر بھی سرحد پار کر لیتے ہیں اور قبائلی علاقوں میں ان کی رشتہ داریاں ہونے کی وجہ سے ان کے لیے وہاں رک کر منصوبہ بندی اور کاروائیاں کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ”را“کے سدھائے ہوئے یہ لوگ جو خاص کر پاکستان کے تناظر میں تربیت یافتہ ہوتے ہیں اپنے ان قبائلی رشتہ داروں کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے کہ وہ کس نیت سے آئے ہیں اور یوں یہ قبائلی علاقوں کی بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں۔تاہم کئی دہائیوں کے نقصان اٹھانے کے بعد اب یہ قبائلی بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ سرحد پار سے ہرآنے والا ان کا دوست نہیں ہوتا اور ان کے اسی محتاط رویے کی وجہ سے اب وہ اپنی حفاظت بہتر طور پر کر سکتے ہیں اور پاک فوج کی انتھک اور بے مثال کوششوں اور قبائلی عوام میں شعور کی بیداری کی وجہ سے اور اللہ پاک کے فضل سے ان کا روائیوں میں نمایاں کمی آچکی ہے اور جہاں ملک میں امن قائم ہوا ہے وہیں ان ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ترقی کا سفر بھی شروع ہوگیا ہے۔ اچھے تعلیمی اداروں کے قیام سے یہاں کے عوام کو بہتر تعلیمی سہولتیں میسر آگئی ہیں خوبصورت اور کشادہ سڑکوں نے فاصلوں کو کم کرکے ان علاقوں میں آمد ورفت کو آسان بنا دیا ہے جس سے وہاں کے لوگ ملک کے دوسرے علاقوں میں با آسانی آجاسکتے ہیں اور گھل مل کر بہتر اور پر امن زندگی کے ثمرات حاصل کرنے کی خواہش کر سکتے ہیں اور اسے حاصل کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں شاید پہلی بار صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی گئی ہیں اور اب یہ لوگ بھی خود کو ترقی یافتہ دنیا کے شانہ بہ شانہ لانے کے لیے بھر پور کوشش کررہے ہیں اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ ان سارے حالات میں جب کہ زندگی ان علاقوں میں واپس لوٹ رہی ہے پی ٹی ایم جیسے لوگ اب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ یہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہوں اور ان کی منفی سیاست کا خاتمہ ہوجائے لیکن یہاں کے لوگ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اب وہ مزید کسی شازش کا شکار نہیں ہوں گے جس کا ایک ثبوت باجوڑ بارکونسل میں محسن داوڑ کے ساتھ شرکاء کا سلوک ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ یہ لوگ اب ان لوگوں کو مزید بیوقوف نہیں بناسکتے۔ اس بات کا ایک اور خوشگوار ثبوت اس بار کی پاکستان ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ بھی ہے جس میں ان علاقوں کی بھر پورنمائندگی موجود تھی اور پندرہ ایسے کیڈٹ پاس آؤٹ ہوئے جن کا تعلق ان علاقوں سے تھا بلکہ قائداعظم گولڈ میڈل بھی وزیرستان کے ایک کیڈٹ جنید خان نے حاصل کیا۔ مجھے ذاتی طورپراس بات کا تجربہ ہے کہ میرے ایسے کئی طالبعلم جن کاتعلق فاٹا سے ہے وہ اس وقت یا تو پی ایم اے میں زیر تربیت ہیں یابے شمار ایسے ہیں جو اس کا حصہ بننے کی بھر پور خواہش رکھتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے قبائلی اضلاع اب قومی دھارے میں مکمل طور پرشامل ہو چکے ہیں اور اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو یہ پیغام دے چکے ہیں کہ اب وہ اپنے علاقے،شہر اور دیہات ان کے مذموم عزائم پورے کرنے کے لیے کسی بھی دشمن کے حوالے نہیں کریں گے اور وہ پاکستان کے وسائل میں بھی اور مسائل میں بھی اسی طرح شریک ہوں گے جیسے کہ پاکستان کا کوئی بھی دوسرا شہری اور وہ دن دور نہیں جب ان کے علاقے کراچی، پنڈی،لاہور،پشاور اور کوئٹہ کے شانہ بہ شانہ چل سکیں گے، انشاء اللہ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں