338

ہم اور ہمارے بچے “….محمد جاوید حیات

تعلیمی نفسیات میں کہتے ہیں کہ پانچ سال تک بچوں کی زبان نہیں ہوتی صرف آنکھیں ہوتی ہیں وہ دیکھ دیکھ کے سیکھتا ہے ۔پھر ہوش سنبھالتا ہے تو اس کو گھر کا ماحول ملتا ہے پھر سکول معاشرہ اور طرح طرح کے سکولز سے واسطہ پڑتا ہے ۔۔لیکن جب بچہ شروع میں جس نہج پہ ڈالا جاتا ہے اس کا اثر دیر پا ہوتا ہے اس لیے ماہریں نفسیات کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کے سامنے اپس میں ترشی تلخی کا مظاہرہ نہ کرنا ۔۔اب جس ماحول میں ہم زندہ ہیں جن حالات سے ہم دوچار ہیں کیاان کا ہمارے بچوں پر اثر نہیں ہوتا ۔۔یہ لو ہم نے ان کے سامنے سیاست کو گالی دی ۔وزیر اعظم کو سست کہا ۔استاد کی نالایقی کا ڈنڈورا پیٹا ۔۔پولیس کو گالیاں کی ۔۔فوج کو برا بلا کہا ۔عدالتوں کی تضحیک کی ۔۔ٹی وی دیکھا تو اس کے سکرین میں موجود عکسی چہروں کی غلطیان گننی شروع کی ۔۔۔ہمارے بچے ہمارے ساتھ بیٹھے ہم ان کے نزدیک سب کچھ ہیں وہ ہم کو تعلیم یافتہ بھی سمجھ رہے ہیں تہذیب یافتہ بھی ۔۔۔سچے بھی سمجھ رہے ہیں کھرے بھی ۔اب ہماری وجہ سے سب کو برا سمجھنے لگیں گے ۔۔لیکن کل سکول میں پاک بہارت جنگوں کے بارے میں پڑھیں گے تو پاک فوج کی قربانیوں اور بہادری کی ایمان افروز داستانیں ہونگی ۔۔وہ سوچیں گے کہ یار ابو تو فوج کو برا کہتا تھا ۔۔وہ پڑھینگے کہ پولیس جان و مال کا محافظ ہوتی ہے ۔۔۔وہ سوچیں گے کہ ہم نے سنا تھا کہ پولیس کرپٹ ہوتی ہے ۔۔۔ان کو کوئ خدا ترس فرض شناس استاد ملے گا وہ حیران ہونگے کہ ابو لوگ استاد کو نالایق اور فرض نا شناس کہا کرتے تھے ۔اور آگے جا کر ان کو کوئ مخلص سیاست دان ملے گا تو ان کو اپنی یاداشت پر شک ہونے لگےگا ۔۔ہم اس لیے مجرم ہیں ۔۔اصلاح کی کوشش کہیں نہیں ہوتی بس ایک دوسرے کی ملامت کرتے ییں ۔اپنے بارے میں سوچتے نہیں ہیں ۔۔دکاندار سیاست دان کو برا کہتا ہے خود دکان کرتا ہے لیکن ناجایز منافع خوری اس کی ادا کاری ہوتی ہے ۔۔پولیس استاد کو سست کہتی ہےخود اس کو فرض کی پرواہ نہیں ہوگی ۔یہ آگے جا کے سیاسی پارٹیوں، بڑے بڑے آفیسروں اور مافیاز تک پہنچتا ہے اور ایک کرپٹ معاشرہ جنم لیتا ہے ۔۔ہمارے بچے ہم سے برایاں سیکھتے ہیں اور برے بن جاتے ہیں ۔۔ہم ایک کرپٹ قوم کو جنم دے رہے ہوتے ہیں ہمارے اردگرد برایاں ہیں ۔اپنے بچوں کو ان براءوں سے بچانے کی بجاے ان کی تشریح کر رہے ہوتے ہیں ۔۔ہمارے بچے ہم سے جو سنا وہی سیکھینگے ۔جو دیکھا وہی کچھ کرینگے ۔۔ماں دوپٹہ سر پہ نہیں ڈالتی ۔بچی کے نزدیک اس کی کیا اہمیت ہو گی ۔باپ بچوں کے سامنے سگریٹ پیے گا اور توقع کرے گا بچہ سموکنگ نہ کرے ۔ گھر میں رشوت کے پیسے آینگے اور باپ اپنی اولاد کی کامیابی کا خواب دیکھے ۔۔باپ اس کے سامنے دوسروں کو گالیاں دے گا اور اس سے توقع کرے گا کہ وہ شاسیتہ زبان استعمال کرے ۔یہ ہو نہیں سکتا ۔انسان دور، وقت اور معاشرے کی پیداوار ہوتا ہے ۔معاشرہ اس کو سیکھاتا ہے ۔۔کہتے ہیں جاپان میں پچھلے تیس سالوں سے کوئ چوری نہیں ہوئ ۔۔یہ صلاحیت کہاں سے آگئ ۔۔یا ان کا قانون اتنا مضبوط ہے یا تربیت ایسی ہے ۔۔قران عظیم الشان نے چوری کی سزا متعین کیا ۔۔۔چور مرد چور عورت کا ہا تھ کاٹا جا ے ۔۔دنیا نے اسلام کے زرین دور میں امن کا وہ دور دیکھ لی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔۔ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ تین سو سالوں میں اسلا م کے زرین دور میں چوری کے صرف تین کیسز رپورٹ ہوے ۔یہ تربیت تھی ۔۔ان بچوں کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ کیا جاتا تھا پھر ان کو پڑھایا جا تا تھا ۔ہمارے ہاں تعلیم و تربیت براے نام کوئ چیز رہ گئ ہے ۔۔میں اسی کو پتھر کا زمانہ کہونگا اس لیے کہ انسانوں کے سینوں میں دل نہیں پتھر رکھے ہوے ہیں ۔اقدار مٹ رہے ہیں اخلاق کردار براے نام ہیں ۔۔انسان خود عرض بے وفا ہے ۔۔اس کو کسی کی پرواہ نہیں ۔اس نے سیکھا ہی ایسا ہے اس کی تربیت ہی ایسی ہوئ ہے ہے ۔ہماری بچے ساینسی دور کی پیداوار ہیں ان کو مفروضوں پر اعتبار نہیں ہوگا وہ حقیقت کی تلاش میں ہونگے اگر ہم ان پر حقیقت اشکار نہ کرینگے تو ان کی تربیت صحیح طریقے سے نہیں ہوگی ہم اگر ان کے سامنے کسی کو گالی دے رہے ہیں کیا یہ واقعی گالی کے لایق ہے یا ہم جھوٹ بول رہے ہیں ۔اگر ہم دونوں ہاتھوں سے دولت کما ریے ییں کیا سچ میں ایسا کر رہے ہیں یا اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔۔بچے یہ ثابت کرنا چاہینگے ۔۔ہمارے بچے ہم سے سو سال آگے ہیں ۔۔ہمیں احتیاط کرنی ہوگی بہت احتیاط

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں