264

فکر فردا…..کاغذی ضلع اپر چترال کے قیام کو دو برس بیت گئے…..کریم اللہ

18 نومبر 2018ء کو خیبر پختونخواہ صوبائی کابینہ نے اپر چترال کو باضابطہ ضلع کا درجہ دے کر نوٹیفیکشن جاری کردیا ، ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس فیصلے کو نہ صرف سراہا بلکہ حکومت کا شکریہ بھی ادا کیا۔ یہ فیصلہ چترال کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا جو کہ عبو ر ہوگیا تھا۔ کیونکہ اپر چترال کے عوام نے ضلع اپر چترال کے قیام کے لئے کئی ایک تحریکیں چلائی تھی ، اور اب ان کا درینہ مطالبہ پورا ہوا تھا۔ اس فیصلے کے ساتھ لوگوں کی بہت ساری توقعات و امیدین وابسطہ تھی ،اپر چترال کے لوگ اس بات پہ خوش تھے کہ اب انہیں معمولی معمولی کاموں کے لئے چترال جانے کے بجائے بونی میں ہی ان کے مسائل حل ہونگے ، مگر دو برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد اب عوام کو احساس ہوا ہے کہ اپر چترال کو الگ ضلع کا درجہ دینے کے نام پر ان کے ساتھ بہت بڑا فراڈ اور دھوکہ کیا گیا ہے ۔ گزشتہ دو سال اور ایک ماہ کے دوران اس ضلع کے حوالے سے کچھ بھی خاطر خواہ کا م نہیں ہوا ۔ ان دو سالوں میں علاقے میں کوئی ایک بھی میگا تو چھوڑئیے مائیکرو لیول کا بھی کام نہیں ہوسکا۔ ہاں البتہ چند سرکاری دفترات کو اپر چترال شفٹ کرکے ایک آدھ آفسران کا یہاں پر تبادلہ ہوا جو دفترات میں بیٹھ کر موسم گرما میں مکھی مارنے میں مصروف رہتے ہیں تو موسم سرما میں ا ن کی اکثریت یہاں سے رفو چکر ہوتی ہے ۔آج بھی مین کام جیسا کہ پولیس سے متعلق امور، امور عدلیہ ، فینانس سے متعلق سارے کاموں کےلئے لوگوں کو چترال ہی جانا پڑتا ہے ۔ جبکہ چترال کے دفترات میں جائے تو اپر چترال والوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیا جاتا ہے کہ آپ کا الگ ضلع بن گیا اب آپ کا ہمارے سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسی دوران گزشتہ دنوں اپر چترال میں جلانے کے لئے لائی جانے والی لکڑی پر پرمٹ کا نفاذ کرکے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا گیا گو کہ وقتی طور پر اس فیصلے کو روکا گیا ہے مگر اگلے ایک سے دو سال کے اندر اندر اپر چترال کے لئے لوئر چترال سے لکڑی لانے پر پابندی عائد ہوگی اور پھر۔
یہی نہیں لوئر چترال کے ٹائیگرز فورس نے گزشتہ دنوں انتظامی افسران کی موجودگی میں اپر چترال کے لئے آٹا لاتے ہوئے کئی گاڑیوں کو روکا تھا اور بیان جاری کیا تھا کہ لوئر چترال سے اپر چترال کی جانب آٹا سمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی۔
یہ سب کچھ اس امر کا غماز ہے کہ صوبائی حکومت نے دو برس قبل جس کاغذی ضلع کا اعلان کیا تھا اس کے یہی ثمرات برآمد ہونے تھے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اپر چترال کو ضلع بنانا یہاں کے لوگوں کا درینہ مطالبہ تھا مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کاغذی حد تک علاقے کو انتظامی یونٹ بنا دیں مگر اس پر عملی کام کچھ بھی نہ ہو۔اگر ان دو سالوں کے دوران اپر چترال کو بطور ضلع مستحکم بنانے کے حوالے سے حکومت تھوڑی بھی اقدامات اٹھاتی تو جس قسم کے مسائل کا آئے روز لوگوں کو سامنا ہے ان کو بھی برداشت کرتے۔
ایک جانب کاغذی حد تک اپر چترال ضلع بن گیا ہے تو دوسری جانب اس ضلع کے حوالے سے عملی کام کچھ بھی نہیں ہوا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں اپر چترال کے باسیوں کو مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں