263

انسدادمنشیات کے لئے پرعزم پولیس افسر۔۔۔۔۔غلام مرتضیٰ باجوہ

نوجوانوں میں منشیات کے رحجان کو روکنے کیلئے لاہور پولیس پر عزم ہے لیکن اساتذہ اور والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے کردار سازی پر توجہ دیں اب منشیات انٹر نیٹ اور موبائل کے ذریعے فروخت ہورہی ہیں اور گھروں میں ڈلیوری ہو رہی ہے کلو وں کے حساب سے لاہور میں منشیات فروخت کرنے والے لاہور کے بچوں کے ساتھ مخلص نہیں ہیں پولیس اپنے فرائض کو بخوبی احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے۔ منشیات کے خلاف ڈرگ ایڈوائزری ٹرینیگ حب کی خدمات قابل ستائش ہیں سید ذوالفقار حسین کی نشہ کے خلاف خدمات پر لاہور پولیس تعریفی سند سے نوازا جائے گا۔ 45 روز میں 1353 منشیات فروشوں کیخلاف مقدمات درج کیے گئے۔ان خیالات کا اظہار سربراہ لاہور پولیس ”سی سی پی او“ غلام محمود ڈوگر نے ڈرگ ایڈوائزری ٹریننگ حب میں منشیات کے خلاف مہم کے حوالے سے تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور فوکل پرسن سے خطاب میں کہی اس موقع پر ایس پی سول لائنیز سید صفدر علی کاظمی بھی موجود تھے کنسلٹنٹ انسداد منشیات مہم سید ذوالفقار حسین، ڈاکٹر شعیب ظفر انچارج سکول پروگرام محسن ذوالفقار او ر ڈائریکٹر کواڈینشن عدیل راشد صائمہ شہزاد، مرتضی صدیقی اور ڈاکٹر اکرام بھی موجود تھے اس موقع پر سید ذوالفقار حسین نے کہا کہ نشہ کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتیوں پر اضافہ ہم سب کیلئے لمیہ فکریہ ہے۔ لاہور میں 120 مقامات پر منشیات کے عادی افراد میں کسی قسم کی کمی نہیں کرسٹل ائس مہنگا نشہ ہے گٹکا، ہیروئن،کوکین، حشیش،چرس سمیت دیگر منشیات اور انجکشین میں بھی کوئی کمی نہ ہو سکی۔ لاہور پولیس کے ساتھ مل کر تعلیمی اداروں میں نشہ کے خلاف کام کیا جائے گا۔ تربیت لینے والے پولیس آفسران کو منشیات کے خلاف پریوینشن پر تربیت دی جائے گی۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچوں میں منشیات کے استعمال کی ایک وجہ ان میں پایا جانے والا تنہائی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ جب والدین انہیں زیادہ وقت نہیں دیتے تو بچے اپنے لیے مصروفیات گھر سے باہر تلاش کرتے ہیں۔ جہاں تک بالغوں کی بات ہے تو ان کے منشیات کا عادی ہو جانے میں بری صحبت کے علاوہ بے روزگاری، مالی مشکلات اور خاندانی مسائل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ جب پتہ چلتا ہے کہ کسی خاندان کو کوئی فرد منشیات استعمال کرنے لگا ہے، تو اکثر وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس کا علاج نہیں کرایا جاتا اور اسے ”پاگل اور نفسیاتی مریض“ کہہ کر نظر انداز کیا جانے لگتا ہے۔ پاکستان میں 2013ء میں تقریبا 77 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، کیونکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں آبادی کے تقریبانصف حصے کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے۔پاکستان میں نشے کے عادی افراد کو تلاش کرنے کے لیے آپ کو کوئی بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑتی۔ ایسے لاکھوں پاکستانی بھکاریوں کی طرح آپ کو ہر شہر میں جگہ جگہ نظر آئیں گے۔
دوسری جانب معاشرے میں بدعنوانی بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، ”پولیس اہلکار چھاپے مار کر مجرم اور منشیات پکڑتے ہیں، تو اوپر سے فون آ جاتا ہے کہ انہیں چھوڑ دو۔ منشیات فروشوں کے بااثر شخصیات سے رابطے ہوتے ہیں۔ اہلکار اکثر بے بس ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کے بہت سے واقعات میں تو خود یونیورسٹیوں اور کالجوں کا عملہ بھی ملوث پایا گیا۔ پاکستان سے منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی، کافی وسائل اور پختہ عزم کی ضرورت ہے، جس دوران کوئی بھی بااثر مجرم قانون کی گرفت سے دور نہ رہے۔“ایسے حالات میں اگرکوئی بہادرپولیس افسر انسدادمنشیات کے حوالے بات کرے توکسی مثال سے کم نہیں بلکہ وہ قابل تحسین عمل ہے۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے بچوں اور بالغ افراد کے لیے ایسے ادارے بنائے، جہاں نہ صرف ان کا علاج ہو سکے بلکہ وہ وہیں رہیں اور دوبارہ اپنی زندگی شروع کر سکیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شہری کو ذمہ داری کے ساتھ انسدادمنشیات کے لئے کام کرنا ہوگا۔ صحت مند قوم کے لئے انسدادمنشیات قوانین پر عملدرآمد کے لئے حکومت وقت کا ساتھ دینا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں