285

صدارتی نظا م کا شوشہ……ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

قو می اسمبلی نے وزیر اعظم عمران خا ن پر ایک بار پھر اعتما د کا اظہار کیا تو سیا سی منظر نا مے پر سکوت طا ری ہو نا چا ہئیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا وفا قی دا رالحکومت کی راہداریوں میں صدارتی نظام کا نیا شوشہ سننے میں آرہا ہے با خبر حلقوں کا خیال ہے کہ مقتدر قو توں کو مو جودہ پا رلیمانی نظام اور دو ایوا نی مقننہ کے کر دار سے ما یو سی ہو ئی ہے قو می اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعظم عمران خا ن، ایم کیو ایم کے نما ئندے خا لد مقبول صدیقی اور سا بق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مر زا کی تقریروں میں بھی ما یو سی، بے قراری اور بے اطمینا نی جھلکتی تھی حزب اختلا ف بھی مو جو دہ سسٹم سے خو ش نہیں ملک کی عدالت عظمی بھی مو جو دہ سسٹم سے مطمئن نہیں نیشنل اکا ونٹیبلیٹی بیورو(NAB) بھی اس نظام سے خو ش نہیں سچ پو چھیں تو ملک کے 22کروڑ عوام کو بھی یہ سسٹم پسند نہیں ہے لو گ اعلا نیہ طور پر ایو ب خا ن، ضیا ء الحق اور مشرف کو یاد کر تے ہیں جب اختیا رات کا منبع صدر ہوا کرتا تھا عوام کو پا رلیما نی جمہوریت، دوایوانی مقننہ اور دیگر آئینی مو شگا فیوں سے براہ راست آگا ہی نہیں وہ اتنا جا نتے ہیں کہ صدر اچھا ہوتا تھا آئینی ما ہرین کہتے ہیں کہ پا کستان میں 1973ء کا آئین بھی تین بڑی ترامیم کے باوجود فرسودہ ہو چکا ہے1985ء میں آٹھویں آئینی ترمیم کے بعد 1987ء میں پا کستان کے اندر نئے عمرانی معا ہدے، نیو سو شل کو نٹریکٹ کی تجویز گردش کر رہی تھی ستر ھویں اور اٹھا ر ویں تر میم میں اس کو نظر انداز کیا گیا اب ملک کو نئے آئینی نظا م اور نئے عمرانی معا ہدے کی ضرورت ہے ساغر صدیقی نے شا ید 1956ء میں یہ بات کہی ہو گی ؎
یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
مرا شعور مزاج عوام بدلے گا
1958ء میں نظام بدل چکا تھا اور ساغر صدیقی نے دیکھا بھی تھا پھر ایسا ہوا کہ 1956والا نظام واپس آگیا مو جو دہ آئین کو سب سے پہلے محمود علی قصوری نے تر تیب دیا آٹھویں ترمیم شریف الدین پیر زادہ کی کا وشوں کا نتیجہ تھا ستر ھویں اور اٹھارویں ترمیم میں رضا ربا نی اور فاروق ایچ نا ئیک کی کا وشیں شامل تھیں اب کی بار بیرسٹر فروغ نسیم کی خد مات حا صل ہیں ان کی خد مات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ گیند کس کے پا س ہے؟ پہلا راستہ یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے صدارتی نظام لایا جائے مو جو دہ حکومت کی دو مشکلات ہیں ایک مشکل یہ ہے کہ اسمبلی میں دو تہا ئی اکثریت حا صل نہیں دوسری مشکل یہ ہے کہ دوسری سیا سی جما عتوں کے ساتھ سلا م دعا یعنی ورکنک ریلیشن شپ نہیں ہے آئینی تر میم کے علا وہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ صدارتی ارڈیننس کے ذریعے، صدارتی نظام نا فذ کیا جائے تیسرا راستہ یہ ہے کہ سیا ستدا نوں کی مکمل نا کامی کی صورت میں کسی بڑے انقلا ب کے ذریعے مو جو دہ نظام حکومت کی پوری بساط لپیٹ کر صدارتی نظام نا فذ کیا جائے سینئر اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے پا س پا رلیما نی نظام کو بدلنے کا زرین مو قع تھا انہوں نے قو می تعمیر نو کا محکمہ بنا یا مگر اس کے ذریعے قومی تعمیر نو کا کوئی کام نہیں کیا اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے سیا سی اور سما جی دا نشور قوم کو نئی راہیں دکھا ئیں نئے عمرانی معا ہدے کی گردجھاڑ کر اُسے دوبارہ سامنے لائیں قومی تعمیر نو نیورو کے تصور کا ازسر نو جا ئزہ لے لیں ساغر صدیقی کہتا ہے ؎
ساقی نے جھوٹ بولا ہے فصل بہار کا
گلشن میں صرف آگ کی انگڑا ئیاں ملیں
آگ کی انگڑا ئیوں کا علا ج نئی سوچ، نئی فکر، نئی شیرازہ بندی ہے نئی شیرازہ بندی کی ابتداء فکر ی انگڑائی لینے سے ہو گی اب اسمبلیوں پر سیا ہ دھبہ لگ چکا ہے، قو می اسمبلی اور سینیٹ دونوں بد نا م ہو گئے ہیں یہ بات دشمن نہیں کر تا اراکین اسمبلی کرتے ہیں وزراء یہ بات کر تے ہیں وزیر اعظم اس بات کی دہا ئی دیتا ہے صدر مملکت اس بات سے نا لا ں نظر آتا ہے ملک کے 200اخبارات، 80ٹیلی وژن چینل یہ بات کررہے ہیں اس کی گونج پا کستان سے باہر عالمی میڈیا میں سنا ئی دے رہی ہے آخر کوئی مسئلہ تو ہے بات یہ نہیں کہ حزب اقتدار اپنے مخا لفین کے سر تھوپے اور حزب مخا لف حکومت کو الزام دے اس حما م میں سب ننگے ہیں شکیل اعظمی نے کیا بات کہی ؎
شہر میں کرتا تھا جو سانپ کے کا ٹے کا علا ج
اس کے تہہ خا نے سے سانپوں کے ٹھکا نے نکلے
نیت سب کی ایک جیسی ہے لگے تیر، نہ لگے تکا، کڑوا، کڑوا تھوتھو، میٹھامیٹھا ہَپ ہپ اگر وطن عزیز کو معا شی، سما جی اور سیا سی بحرانوں سے نکا لنا ہے تو اس کا راستہ یہ ہے کہ مستحکم صدارتی نظام کے ذریعے اداروں کو مضبوط کیا جائے قانون کی حکمرا نی 1960کے عشرے کی طرح ہو گی تو سما جی اور معا شی تر قی بھی 1960کے عشرے کی طرح ہو گی اور صدارتی نظام کے بغیر اس کا امکا ن نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں