589

سب تحصیل تورکھو صحت کی بنیادی سہولت سے محروم علاقہ!۔۔۔۔ذاکر محمد زخمیؔ تورکھو حال بونی۔

گاون استارو سے شروع ہوکر ریچ کھوت تک کے علاقے کو عام طورپر تحصیل تورکھو کہا جاتاہے لیکن سرکار کی کاغذات میں یہ سب تحصیل ہی ہے۔آخری مردم شماری کے مطابق جو کہ غالباً ۱۹۹۸ ؁ میں ہوئی تھی یہ علاقہ تقریباً ۲۸۰۱۶، افراد پر مشتمل کہا جاتا ہے ۔جو بڑھ کر اِس وقت مختاط اندازے کے مطابق۴۸۰۰۰ ہزار نفوس پر مشتمل ہوگی ۔اور ساتھ اگر صرف ایک دریا ہ کی لیکر کو پار کی جائے تو یونین کونسل تریچ کا پورا علاقہ تحصیل تورکھو کا ہی (جغرافیائی لحاظ سے)حصہ شمار کیا جائے گا کیونکہ انتہائی قریبی علاقہ ہونے کے ناطے تورکھو سے حاصل ہونے والی جملہ سہولت سے مستفید ہونا یو۔سی تریچ کے حصے میں اتی ہے ۔ جوکہ زیزدی سے لیکرشاگروم تک کا واسع علاقہ ہے ۔تو یو ۔سی تریچ کی آبادی کو بھی تورکھو سے ملایا جائے تو تقریباً ۶۰۰۰۰ ہزار افراد(کم و بیش) بنتے ہیں ۔تو ان ۶۰۰۰۰ ہزار پر مشتمل آبادی کو اگر بنیادی صحت کی سہولت کے حوالے سے دیکھا جائے تو نظر انے والی کچھ اطمنان بخش بات ہر گز نہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالعہ ارائی بھی ہر گز نہیں کہ یہاں بنیادی سہولیات صحت کے حوالے سے ہے ہی نہیں تو بجا ہوگا ۔تحصیل تورکھو کے صدر مقام شاگرام میں کسی زمانے میں محکمہ صحت زمین خرید کر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنانے کی خوشخبری سنائی تو لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ مگم شومئی قسمت کہیے یا عوامی نمائیندوں کی بے حسی جب عمارت مکمل ہوئی تو اسٹاف کے لیے یہ ہی عمارت کئی سالوں تک منتظر رہی کہ کوئی اکے مکین کا کردار ادا کرے اور بچارے عوام کو مجھ سے فائدہ پہنچ جائے ۔ حکومتی کوئی ادارہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ عالیشان عمارت کو خالی پاکرپرائیوٹ ہسپتال چلانے والے ادارے اپنی خدمات پیش کرنے لیے اگے ائی یوں یہ عمارت (حکومت اور اے۔کے۔ایچ۔ایس۔پی)کے با ہمی رضامندی سے اے۔کے ۔ایچ۔ایس ۔پی کو حوالہ کردیا گیا جو کہ آغاخان میٹرنٹی کئیر سنٹر کے نام سے سے اپنی خدمات شروع کی ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ میٹرنٹی کئیر سنٹر متعلقہ امور کی انجام دہی اپنی قواعد و ضوابط کے تحت ادا کر رہی ہے اور عوام اسے کتنی مطمئن ہیں یا عوام کو کتنی فائدہ پہنچ رہی ہے اس بحث میں ہم نہیں پڑتے۔ان کا اپنا طریقہ کار ہے ان کی متعین فیس ہے جو ہر ایک سے وصول کرنے کے بعد علاج کرنے کے پابند ہیں۔ فیس وصول کیے بے بغیرکسی کا علاج معالجے کے نہ پابند ہیں اور نہ کر سکتے ہیں۔کیونکہ مریض سے وصول شدہ فیس کی بل بوتے پر ہی کئیر سنٹر کا نظام روان دوان ہوتا ہے اور مریض کا علاج ان کی اپنی ہی فیس پر منحصر ہوتی ہے۔ بصورتِ دیگرنظام کو درست رکھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہی ہے ۔اس میں کسی کے ساتھ رعایت برتنے کی کوئی گنجائش نہیں۔کیونکہ وہاں پیشئینٹ ویلفر سوسائٹی متحریک نہیں۔ہسپتال میں موجود چند سٹاف اور چند مشینری حکومت کے بھی ہیں لیکن انہیں بھی کلی طورپر اے۔کے ۔ایچ۔ایس۔پی کے تحویل میں دیا گیا ہے نہ حکومتی اہل کار اور نہ حکومتی مشینری سے کسی مریض کو کوئی اضافی فائدہ حاصل ہے ۔فیس جو ان کے قواعد ہیں کے مطابق وصول کی جاتی ہیں۔اس میں او۔پی۔ڈی ۱۲۰ روپے عام وقت میں وصول کی جاتی ہے اور ۱۴۰ روپے چھٹی کے بعد یا چھٹی کے دنوں میں انے والے مریضوں سے وصول کرلیا جاتا ہے ۔ بلڈ گروپنگ اور کراس میچینگ کا فیس ۱۹۵۰ ،روپے تک ہے ۔ار۔بی ایس۲۴۰،سی۔بی۔سی۲۸۰،ایکسرے چیسٹ کا ہو ۲۵۰ روپیہ، یورین اگر چیک کرنا ہو تو ۱۴۰ روپے اور دوسرے ٹیسٹ ان سے زیادہ ہوسکتے ہیں کم نہیں اور یہ میٹرنٹی کیئر سنٹر کا طریقہ کار ہے ہمیں اسے کوئی اختلاف نہیں اگر اختلاف ہے تو اس بات پر کہ عوام کے پاس اپشن نہیں ہے متبادل کوئی نظام نہیں ہے ،قریب کوئی دوسرا ہسپتال نہیں،کوئی دوسرا مستند ڈاکٹر نہیں ہے ۔ کوئی کسی کا مفت میں بلڈ پریشر چیک کرنے والا نہیں،کوئی سر درد کا ایک گولی مفت میں دینے والا کوئی مسیحا نہیں۔ تو ایسے میں حکومت تحصیل تورکھوکو میرا علاقہ اگر کہتا ہے تو عجیب محسوس ہوتاہے کہ کیسی حکومت ہے جو اتنی افراد کو ایک ڈاکٹر دینے میں ناکام ہے،چند ڈبے پیراسٹامول اور سر درد کی گولیاں دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو پھر یہ محکمہ صحت، وزراتِ صحت وغیرہ کس مرض کا دَوا۔
اس تحریر کا ملطب میٹرنٹی کیئر سنٹر کو ہدفِ تنقید بنانا ہر گز نہیں وہ اپنے اصول اور کرئٹریا کے تحت قابلِ قدر خدمات فراہم کرتے ہیں ان کی خدمات کی اگر اعتراف نہ کی جائے تو احسان فراموشی کے سیوا کچھ بھی نہیں۔لیکن یہاں جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ حکومت اور عوام نمائیندوں کی پیشانی پر داغ کا ۔اگر کوئی یہ دعویٰ کر رہاہے کہ حکومت ہے تو کہاں ہے ۔ائینِ پاکستان کے رو سے بنیادی سہو لتوں میں ایک سہولت بنیادی صحت کی بھی ہے لیکن ۶۰۰۰۰ ہزار(کم و بیش) کی آبادی کے لیے بنیادی صحت کی سہولیات کہاں ہے اور اِن لوگوں کو سال میں کتنی دوائیاں دی جاتی ہیں ۔اگر پاسماندگی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو تور کھو چترال میں پاسماند ترین علاقوں میں شمار ہوتاہے ۔کیا یہاں کے عوام اتنی بھاری فیس دیکر اپنی علاج معالجے کرانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ اگر ہو سکتے ہیں تو دوسری جگہوں میں ہسپتال بنانے کی کیا ضرورت ہے جو سب تحصیل تورکھو سے ہر لحاظ سے ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ہیں۔اس وقت خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے ۔وہ انصاف کا نعرہٗ مستانہ لگاتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے میلاتے ہیں ۔کیا یہ ہی انصاف کا تقاضا ہے کہ تحصیل تورکھو کے عوام کو بنیادی صحت کی سہولت سے محروم رکھا جائے اور انہیں پرائیوٹ اداروں کی رحم و کرم پر چھوڑ کرخود کو برالذمہ قرار دے ۔اگر حکومتی رٹ کا دغویٰ کر رہے ہیں تو اپنی عوام کو اتنی حق تو دے کہ بیماری کی صورت میں اپنی جیپ کو دیکھ کر فیصلہ کر لے کہ وہ پرائیوٹ ہسپتال جانے کے متحمل ہے بھی کہ نہیں اگر مریض کے جیب اسے یہ اجازات نہیں دے رہی تو کیا سسک سسک کر مرنا ہی اس کا مقدار ہے ۔ موجودہ ایم۔پی۔اے سید سردار حسین صاحب دنا،زیرک اور عوامی مسائل کی تہہ تک رسائی رکھنے والا نمائیندہ ہیں آ پ کو بخوبی معلوم ہے کہ آپ کے حلقہ انتخاب میں عوام کی معاشی حیثیت کیا ہے ۔وہ غربت کے کس درجے پر ہیں کیا آپ کے عوام متذکرہ بالا فیسوں کو ادا کرنے کے استطاعت رکھتے ہیں۔ غریب کی غریبی آپ پر عیاں ہے آپ نہ صرف سب ڈویژن مستوج بلکہ چترال کے گھر،گھر کی حالت سے بخو بی واقف ہیں۔آپ سے خصوصی درخواست کرنے میں عوام تورکھو حق بجانب ہیں کہ برائے مہربانی اپنے دورِ اقتدار میں تحصیل تورکھو کے اس اہم مسلہ پر ضرور توجہ دے۔ اگر آپ کے اسمبلی میں ہوتے ہوئے بھی یہ حساس مسلہ حل نہیں ہوا تو تحصیل تورکھو کے عوام کے لیے دائمی بدقسمتی ہے۔ اقتدار انی جانی چیز ہے۔ آپ کوزندگی بھر بِن مانگے اور بِن چاہے دعائیں ملتے رہینگے اور وہ بھی مجبور،لاچار اور بے بسوں کی بس صرف ایک ڈاکٹر، ایک ڈسپنسر اور چند کاٹن داوائیوں کی دوری پر ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں