260

داد بیداد..…لا وارث روڈ…..ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

6سا لوں سے اخبارات کے اندرونی صفحات میں ایک سڑک کو دریا کے کٹا ؤ سے بچا نے کی اپیلیں شائع ہو رہی ہیں مگر ان اپیلوں پر کوئی کا ن نہیں دھر تا یہ سڑک 5لا کھ آبادی کے لئے آمدو رفت کا ذریعہ ہے اور خیبر پختونخوا کے دو اضلا ع کوبراہ راست گلگت بلتستان سے ملا نے کے لئے رابطے کا کام دیتی ہے ہر سال چا لیس ہزار سیا ح یہاں سے گذر تے ہیں جو لا ئی 2015کے سیلا ب میں سڑک کو نقصان پہنچا تھا اس کے بعد ہر سال دریا آتا ہے کٹا ئی کر کے زمین کو بہا لے جا تا ہے مسئلہ صرف سڑک کا نہیں دھا ن اور گندم کے کھیت، سیب،ناشپا تی، آخروٹ اور انگور کے با غا ت بھی در یا برد ہو رہے ہیں سڑک بھی در یا برد ہو رہی ہے جس کو سیا سی اور سما جی کا رکنوں نے ”لا وارث“ قرار دیا ہے اگر چہ یہ کہا نی ضلع اپر چترال کے گاوں ریشن کی ہے تا ہم اس کے لا وارث ہو نے کا اطلا ق صوبے کی کسی بھی سکیم پر ہو سکتا ہے کیونکہ گورننس کا معا ملہ ایک جیسا ہے نجی املا ک اور سر کا ری منصو بوں کو دریا کے کٹاؤ سے بچا نے کے لئے اگر فیصلہ کرنے کی نو بت آئے تو تما م محکمے پیچھے ہٹ جا تے ہیں ذمہ داری کوئی نہیں لیتا سیا حت کے لحا ظ سے اہم ترین سڑک شندور چترال گلگت روڈ کے کلو میٹر 51سے 53تک 3کلو میٹر کا حصہ 2015کے بعد دریا کی طغیا نی کی زد پر ہے اس کو در یا کی طغیا نی سے بچا نے کا طریقہ مو جو د ہے نو مبر سے جو ن تک دریا کم ہو تا ہے اس دوران 8مہینوں میں بھا ری مشینری کے ذریعے دریا کا رخ موڑ کر با غا ت، فصلا ت اور سر کاری سڑک کو برباد ی سے بچا یا جا سکتا ہے 6سا لوں میں ایسے 6سیزن گذر گئے کسی کو ایک پتھر ہٹا نے کی تو فیق نہیں ہوئی پہلی بات یہ ہے کہ نجی املا ک کی بربادی کا کسی نے پو چھا بھی نہیں سڑک کی بر بادی پر بحث ہو تی ہے بات چلتی ہے کہا جا تا ہے کہ یہ سڑک نیشنل ہا ئی وے اتھار ٹی کو دی گئی ہے صو بائی حکومت کا اس میں عمل دخل نہیں نیشنل ہا ئی وے اتھا رٹی کہتی ہے کہ ہم نے 16ارب روپے کی سکیم کا پی سی ون بنا یا ہے ایکنک سے منظور کر ایا ہے فیز بیلٹی بن چکی ہے ٹینڈر کے کا غذات تیار ہو نگے توکا م کا ٹینڈر جار ی ہو گا اس کا روائی میں 5سال یا 6سال کا لگنا معمول کی بات ہے اس میں تا خیر نہیں ہوئی خراسان کے ایک گاوں میں 16سالہ شہزادے کو سانپ نے کا ٹا، مشہور طبیب کو بلا یا گیا، طبیب نے کہا فکر مت کرو اس کا تر یاق ہے جو عراق میں ملتا ہے میں ہر کارے دوڑ اتا ہوں عراق سے تریاق آئے گا تو شہزادہ با لکل تندرست ہو گا یعنی ”گھبرا نا نہیں“ اس پر ایک مو لوی نے فقرہ چُست کیا ”تا تر یا ق از عراق آوردہ شود ما گزیدہ مر دہ شود“ جب تک عراق سے تر یا ق اٹھا کر خراساں لا یا جا ئے گا سانپ کا ڈسا مر چکا ہو گا محکموں کی با ہمی لڑا ئی میں ایک اور موڑ اُس وقت آیا جب ایک محکمے کے انجینئرنے اس کو محکمہ زرعی انجینئر نگ کی سردردی قرار دیا کیونکہ سڑک کا پورشن کم ہے زرعی زمینوں اور با غوں کا پورشن زیا دہ ہے جس میں مکا نا ت بھی آتے ہیں زرعی انجینئرنگ والوں نے بال کھیلے بغیر محکمہ انہار یعنی اریگیشن کے کورٹ میں پھینک دیا کہ اس طرح کے نقصانا ت کا ازالہ اریگیشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، فنڈ اور مشینری ان کو دی گئی ہے خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ 2015میں مو جو دہ وزیر اعظم عمران خا ن نے ہیلی کا پٹر میں اس جگہ کا فضا ئی جا ئزہ لیا تھا 2020میں وزیر اعلیٰ محمود خا ن نے ریشن گاوں میں جلسہ سے خطاب کیا، سیلاب زدگان میں چیک تقسیم کئے اور دریا کے کٹا ؤ سے ہو نے والے نقصانات کا جا ئزہ لیا وزیر اعلیٰ کو ریشن میں 4میگا واٹ کے لا وارث بجلی گھر کی بحا لی کی ضرورت سے بھی آگا ہ کیا گیا لیکن احکا ما ت کے کا غذات سر کاری دفترات میں گم ہو گئے اپریل 2021میں کا م کے صرف دو مہینے رہ گئے ہیں ان دو مہینوں میں گلگت روڈ کا کوئی وارث پیدا نہیں ہوا تو سیا حت کا ایک باب بند ہو جا ئے گا اور کہا جا ئے گا کہ یہ لا وارث روڈ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں