301

کام اور بھی ہیں شجرکاری مہم کے سواء ۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا یہ کہناکہ گرمی زیادہ ہورہی ہے اور گلیشئرپگھل رہے ہیں اورمذاق کے لئے درخت نہیں لگارہے بلکہ آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کی غرض سے شجرکاری کررہے ہیں سے کوئی اختلاف نہیں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹمبرمافیاکے ہاتھوں درختوں کی غیرقانونی کٹائی اورٹمبر سمگلنگ کے باعث جنگلات کوناقابل تلافی نقصان پہنچاہے اور اگر کہاجائے کہ خیبرپختونخوامیں بڑے پیمانے پرجنگلات کاخاتمہ کیاگیاہے جہاں درختوں کی نسل کشی کے درپے مافیانے پودانماچھوٹے درختوں کو بھی معاف نہیں کیاہے توشائد غلط نہیں ہوگاجس سے قدرتی ماحول بری طرح متاثرہواہے اور موسم میں تغیراتی عمل نے جنم لیاہے یہی وجہ ہے کہ اب گرمیوں میں زیادہ گرمی اور سردی کے موسم میں شدید سردی پڑتی ہے ،جس موسم میں بارشیں نہیں ہونی چاہئے اس میں طوفانی بارشیں ہوتی ہیں جبکہ جوموسم بارشوں کاہوتاہے وہ خشک سالی میں گزرجاتاہے۔ یاتوتباہ کن سیلاب آتے ہیں جن کی تباہ کاریوں سے شہریوں کی جان ومال اور املاک محفوظ بنانا حکومت اور سرکاری مشینری کی بس سے بھی باہرہوتاہے 28جولائی2010 کاتباہ کن سیلاب جس نے ملک بھر کواپنی لپیٹ میں لیاتھااوربڑے پیمانے پر انفراسٹرکچرکوتہس نہس کرکے تباہی مچائی تھی اس واضح مثال تھی ۔یا اگر بارشیں ہوتی ہیں نہ سیلاب آتے ہیں توپھر عالم یہ ہوتاہے کہ ندی نالے خشک پڑجاتے ہیں اور کنووں میں پانی ختم ہوجاتاہے جس سے نہ صرف یہ کہ پانی کی کمی کے باعث بجلی کی پیدوارکم ہوجاتی ہے اور جنم لیتے توانائی بحران کے پیش نظر بجلی کی بندش کادورانیہ بڑھ جاتاہے جس سے ملکی معیشت برح طرح متاثر ہو جاتی ہے جبکہ قدرتی موسم میں انگڑائی لیتا تغیراتی عمل سے کھڑی فصلوں کوبھی شدید نقصان پہنچتاہے کیوں کہ فصلوں کے لئے جہاں خشک سالی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے وہیں ضرورت سے زیادہ بارشیں بھی مفید ثابت نہیں ہوتیں۔سواس ضمن میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کاجنگلات کی افادیت بیان کرنااور شجرکاری مہم چلاناقابل تعریف اقدام ہے مگر ان کی اس لب کشائی کوان کے سیاسی مخالفین ماننے کوتیارنہیں کہ پی ٹی آئی بلین ٹری مہم کے تحت خیبرپختونخوامیں ایک ارب ،بیس کروڑدرخت لگائے گی ۔شجرکاری مہم کے حوالے سے عمران خان کے بلندوبانگ دعوں پر مبنی تقاریراور بیانات پر ان کی سیاسی مخالف جماعتیں جن میں حکمراں جماعت مسلم لیگ نون،پیپلزپارٹی،جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی قال ذکر ہیں ردعمل دیتے ہوئے مؤقف اختیارکرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کے دعوے محض ان دعوں اور وعدوں کاتسلسل ہے جووہ 11مئی 2013کے عام انتخابات سے قبل کرتے تھے اور کے پی کے کی حکومت سنبھالنے سے لے کر اب تک کرتے آرہے ہیں کہ وہ خیبرپختونخوا کو ایک ماڈل صوبہ بنائیں گے اور یہاں کی طرز حکمرانی وفاق اور دیگر صوبوں کے لئے مثال قائم کرے گی، سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کے پی کے حکومت کرائے گی،نئے شہر بسائیں گے،صوبائی معیشت کو مثالی بنایاجائے گا اور اس حوالے سے غیرملکی سرمایہ کاروں کوراغب کریں گے،صحت اور تعلیم کے شعبوں میں انقلاب لائیں گے،یکساں نظام تعلیم رائج کریں گے،امن وامان کی صورتحال بہتر بنائیں،انفراسٹرکچرڈویلپمنٹ پر خصوصی توجہ دیں گے،انصاف کو عام کریں گے اور تبادلوں ،تقرریوں اور تعیناتیوں سمیت تمام فیصلے میرٹ پر کئے جائیں گے،غربت اور مہنگائی پر قابو پانے کے لئے روزگارکے ذرائع فراہم کریں گے اور مقامی سطح پر انڈسٹریز کو فروغ دیاجائے گا،تھانہ اور پٹواری کلچر کاخاتمہ کرکے فرض شناسی کی مثال قائم کریں گے،اداروں کو مستحکم بنانے کی غرض سے رشوت اور کرپشن کاخاتمہ یقینی بنائیں گے اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کے ساتھ بے رحم احتساب کیاجائے گا جبکہ سرکاری اداروں میں سیاسی اثرورسوخ اور مداخلت کاخاتمہ کیاجائے گا،پانی کے ذخائراوردیگرقدرتی وسائل کوبروئے کارلاکرترقیاتی میدان میں انقلاب برپاکریں گے اور ہرممکن کوشش کریں گے کہ عوام کو بہتر سے بہترسہولیات فراہم ہوں،صحت مند معاشرہ کی تشکیل کی غرض سے کھیل کود کی سرگرمیوں کوفروغ دیں گے اور اس مقصد کے لئے ہر ٹاؤن اور یونین کونسل کی سطح پر کھیل کے میدان بنائے جائیں گے وغیرہ وغیرہ مگر ان کے وعدے تاحال وعدے ہی ثابت ہوئے ہیں ۔پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت وعدے اور دعوے کے مطابق بلدیاتی الیکشن کرانے میں یکسر ناکام رہی اور اگر عدالتی اورعوامی دباؤ نہ ہوتاتو بلدیاتی الیکشن سرے سے عمل پذیرہی نہ ہوتے جبکہ بلدیاتی الیکشن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیانے دھاندلی اور سیاسی زورآزمائی کاجوحال پیش کیااس کے بعد کہنے کوکچھ رہ بھی نہیں جاتا۔ تعلیمی اداروں میں یکساں نظام تعلیم رائج ہوسکاہے نہ ہی صحت کے شعبے میں کوئی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔نئے شہر بسانے کے دعویدار توپرانے شہروں کی حالت بھی نہ سدھارسکے۔ان کے مطابق اگرچہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں کسی حد تک ترقیاتی کام نظرآرہے ہیں مگر بقیہ صوبے کاحال جیساتھاویساہی ہے اورانفراسٹرکچر میں کوئی قابل ذکر کام دکھائی نہیں دیتا۔اگرچہ محکمہ پولیس میں کسی حد تک اصلاحات کی گئی ہیں مگر تھانہ کلچر کاحال اب بھی وہی ہے جوپہلے تھا۔ تبادلے، تقرریاں اور تعیناتیاں کاعمل بھی پرانے نظام کے تحت قائم ہے جبکہ انصاف کی فراہمی اورکڑے احتساب کے دعویداروں نے تو اپنے ہی قائم کردہ احتساب کمیشن کے سربراہ کواستعفیٰ دینے پر مجبورکیا۔خیبرپختونخوامیں امن وامان کی صورتحال مثالی نہیں ہے اور دیگر علاقے تو کجاصوبائی دارالحکومت پشاورمیں بھی لوگوں کی جان ومال محفوظ نہیں جہاں قتل وغارت گری اور بھتہ مافیاکاراج ہے۔اداروں میں اقرباپروری اور اثرورسوخ کی سیاست کابھی کوئی خاتمہ نہیں ہوا۔ سو وجود رکھتے ان حقائق کی روشنی میں پی ٹی آئی کے چیئرمین اور خیبر پختونخواکے وزیراعلیٰ کے دعوں اور وعدوں پر کیسے یقین کیا جاسکتاہے۔بہر حال قطع نظراس کے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت خیبر پختونخوامیں جاری شجرکاری مہم میں کتنے درخت لگاتی ہے اور ان کے سیاسی مخالفین اس عمل کوکس نظر سے دیکھتے ہیں پھر بھی یہ تو طے ہے کہ درخت لگاناایک مثبت عمل ہے اور قدرتی ماحول کوبچانے اور آنے والی نسلوں کومحفوظ بنانے کی خاطرپی ٹی آئی کی اعلان کردہ شجرکاری مہم قابل تعریف بھی ہے مگر جیساکہ انسانی صحت کو پانی کے ساتھ ساتھ غذا کی بھی ضرورت ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح ایک خوشحال ،پرامن اورتوانامعاشرہ کی تشکیل تب ہی ممکن ہے جب زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کایکساں عمل جاری ہومحض شجرکاری سے بات نہیں بنے گی بلکہ تمام شعبوں میں یکساں اقدامات اٹھانے ہوں گے ورنہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان قائم رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں