296

5جون ماحولیات کاعالمی دن۔۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

عالمی یوم ماحولیات ہر سال 5 جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کومنانے کامقصد آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ماحول کو لاحق خطرے کے بارے میں شعوراجاگر کرنا ہے۔تاکہ آلودگی کی وجہ سے ماحول کو ممکنہ نقصانات سے بچایاجائے ۔ سرکاری اورغیرسرکاری ادارے ماحول کے تحفظ اورماحول پرانسانی سرگرمیوں کے اثرات کے مطالق بیداری پیداکرنے اورتحفظ فراہم کرنے میں  اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے تحفظ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حکومت اور پاکستانی عوام کو شدید چیلنجز درپیش ہیں۔

چترال جیسے پہاڑی علاقوں میں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے  گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع  ہوجاتے ہیں ۔جس کے باعث ندی نالوں اوردریاکے نشیبی آبادی میں سیلاب آجاتاہے جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہونے کااندیشہ ہے۔پہلے سیلاب آتاہے اوربعدمیں نہری نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے لوگوں کے فصلیں ،باغات اورجنگلات تباہ ہوجاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہمیں اپنے رویوں اور طرز زندگی میں تبدیلی لانی ہوگی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کیلئے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہماری سماجی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جن کا ہم سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔

چترال میں ماحولیاتی آلودگی میں کمی لانے، جنگلات کے فروغ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب کے نقصانات کو کم سے کم کرنے، خطرات سے بچنے اور ماحول کی بہتری کیلئے درخت لگانے چاہئے۔جنگلات کی بے دریغ کٹائی تیزی سے بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں   میں اضافہ کردیتی ہے ۔ماحول کوبہتربنانے کے لئے ہرطرح کاخیال رکھنابہت ضروری ہے۔

ایک چھوٹی سی واقعہ:۔ چترال کی بڑھتی ہوئی بے ترتیب آبادی نے جہاں چترال شہر میں ماحولیاتی آلودگی سمیت کئی مسائل پیدا کئے ہیں ۔ وہاں چترال میں گاڑیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے اور اُن کی بے ترتیب پارکنگ کی وجہ سے بھی شہریوں کوماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ کئی  پریشانیوں کا سامنا ہے ۔ بہت سارے لوگ جوگاڑی چلاتے ہیں ۔ ٹریفک قوانین اور عام لوگوں کی مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سینہ زوری سے نو پارکنگ کو پارکنگ بنا لیتے ہیں ۔ جس سے عام لوگ چلنے پھرنے تک سے محروم رہتے ہیں ۔

اس کی ایک واضح مثال ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال چترال  کے گیٹ کے باہر کھڑی گاڑیوں کی بھر مار سے نہ صرف مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بلکہ مریضوں کے معاونین اور تیمارداروں کو بھی شدید تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے ۔ دونوں طرف گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے پیدل چلنا بھی مشکل ہوجاتا ہے ۔ ایمبولینس کا گزرنا بھی محال ہے ۔اور ہسپتال کے قریب ترین علاقوں کی خواتین کو پیدل ہسپتال آتے ہوئے انتہائی دقت اُٹھانی پڑتی ہے۔ چترال میں سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر کی تعداد اب سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے ، لیکن کسی بھی ایک دفتر کے پاس پارکنگ ایریا نہیں ہے ، لیکن ان اداروں کے ملازمین ا پنی محکمانہ وجاہت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے سڑکوں کو پارکنگ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ٹیکسی اور پرائیویٹ گاڑی مالکان نے بھی تمام سڑکوں کو پارکنگ کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔اس طرح  کے چھوٹے  ماحولیاتی آلودگی کوبھی اجتماعی کوششوں کے ذریعے قابوپانے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر ماحولیاتی مسائل اور موسمیاتی تبدیلی جو ایک عالمی خطرہ ہے۔  ہماری سماجی بہبود کے نقطہ نظر تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ  ہماری  روزمرہ کے زندگی  سے جڑی ہوئی ہیں۔جس میں ہرمکتبہ فکرکے لوگ  اپنااپناکرداراداکرنے کی ضرور ت ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں