289

بُرجِ خموشاں…….ڈاکٹر شاکرہ نندنی

میں ایک نوتعمیر عمارت میں ہوں۔

یہ ایک بُرج سا ہے۔

برج کسی نامقدس ناہنجار ٹوٹم کی طرح ایک طرف جھک گیا ہے۔ ابتدا میں اسے کُرے کا مرکز قرار دے کر عموداً نصب کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، اگرچہ بنیادی بد دیانتی سے کام لے کر اسے ٹیڑھا گرایا گیا؛ پھر زمین کی کشش دوسری سب چیزوں پر حاوی آ گئی، اس لئے برج زاویۂ قائمہ بنانے سے قاصر رہا اور ایک طرف جھکتا چلا گیا۔ جب یہ ہو چکا تو خاموشی کے ساتھ طے کیا گیا کہ اب اسے صرف کریا کرم کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اس طرح زندوں کے لئے تعمیر ہونے والی اس عمارت کوبرجِ خموشاں بنا دیا گیا، اور یہ بات مجھ سے چھپائی گئی۔

مجھے برج کے جھک جانے پر، یا اس کے نئے استعمال پر، یا بات کے چھپائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اب تو کسی چیز پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض اسے کرنا چاہئیے جس کے بس میں کچھ ہو۔ میرے بس میں کچھ نہیں ہے۔ صرف تماشائی ہونا میرے اختیار میں ہے، اس لئے میں صرف تماشا دیکھ رہی ہوں۔

میں سر اٹھائے برجِ خموشاں کے دہانے سے نظر آتے روشن آسمان کی طرف دیکھ رہی ہوں، اور دیکھ رہی ہوں کہ مُردارخور پرندوں کے غول روشن آسمان کے مقابل آ کر اسے ڈھک لیتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بصری دھوکہ ہو، مگر میں اپنی ہڈیوں میں محسوس کر رہی ہوں کہ ابتلا کا آغاز ہو چکا ہے۔

خواتین و حضرات! مجھے گمان ہے کہ میں کسی حد تک زندہ لڑکی ہوں اور غلطی سے یہاں موجود ہوں، کہ یہ برج غلطی سے میرے گرد تعمیر کر دیا گیا ہے۔ اس لئے امید کرتی ہوں کہ آپ کا خداوند مجھے اب چیخنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔

” پھرایک لڑکی کی چیخ، اس کے بعد سناٹا۔۔۔۔۔۔۔”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں