311

داد بیداد۔۔۔۔ (S.O.S(چترال۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ۔

ٓانگریز ی میں ایس او ایس مشہور مخفف ہے۔ پورا جملہ سیو اور سولز تھا۔ اس کا اردو ترجمہ ہے ہماری جانوں کوبچاؤ۔ قدرتی آفت ، انسانی آفت اور سرکاری آفت کی صورت میں لوگ چیختے ہیں کہ ہماری جانوں کو بچاؤ۔یہ چیخ و پکار اقوام متحدہ کے سسٹم میں ، ترقی یافتہ ملکوں میں اور ذمہ دار قومی حکومتوں میں ایس او ایس ((SOSکو ایمرجنسی تصور کیا جاتاہے اور فوراً لوگوں کی جانیں بچانے کا انتظام ہوجاتا ہے۔ چترال میں قدرتی آفت جون 2015میں آئی تھی۔ دسواں مہینہ گذر گیا اب سرکاری آفت نے 5لاکھ کی آبادی کو گھیر لیا ہے۔ قدرتی آفت آنے کے بعد 10مقامات پر سڑکیں ٹوٹ گئیں تھیں۔ 8مقامات پر پلوں کو نقصان پہنچا تھا۔ گذشتہ جولائی سے اب تک 9مہینے گذر گئے۔ لوگ (SOS)کا شور مچا رہے ہیں۔ ان کی جان بچانے کیلئے کوئی نہیں آیا۔ لوگوں نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دی۔ لوگوں نے روڈ بلاک کیا کسی نے ان کی آواز نہ سنی ۔ جون 2015 میں ٹوٹی ہوئی سڑکیں اسی حالت میں ہیں۔ گرے ہوئے پل اسی حال پر ہیں۔ اپریل 2016 ء میں( SOS)کال کا صرف ایک مطلب ہے ایک ماہ بعد ندی نالوں اور دریاؤں میں نئے موسم کی طغیانی آئے گی۔ دو ماہ بعد پھر سے مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ جو سڑک ٹوٹی ہے۔ کسی کی کھیت سے یا باغ سے عارضی راستہ بنالیا گیا ہے۔ وہ راستہ بھی طغیانی میں بہہ جائے گا۔ سب ڈویژن مستوج کی ڈھائی لاکھ آبادی سڑک سے محروم ہوجائیگی ۔ گرم چشمہ کی 50ہزار آبادی آمدورفت کی سہولت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ کالا ش وادی کی 10ہزار آبادی کا راستہ پچھلے سال کی طرح بند رہے گا۔ پھر نومبر تک کام بھی شروع نہیں ہوسکے گا۔ حکومت سے عوام کے تین چھوٹے چھوٹے معمولی مطالبات ہیں۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف اور صوبائی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے 21 جولائی 2015 ء کو 50کروڑ روپے کا اعلان کیا تھااور کہا تھاکہ 50کروڑ روپے کی امداد سے انفراسٹرکچر کو بحال کیا جائے گا۔ اور یہ رقم سالانہ ترقیاتی پروگرام کے علاوہ ہوگی۔ اس 50کروڑ روپے کا سراغ لگا یا جائے۔ اگر 50کروڑ روپے کا فنڈ اب تک نہیں ملا تو کیوں نہیں ملا ؟ اگر خدا نخواستہ ، پھر خدانخواستہ وہ فنڈ آگیا ہو تو کدھر گیا ؟ کس نے خرچ کیا؟ اور کہاں خرچ کیا ؟ سڑکوں پر سفر کرنے والے اور پلوں کی جگہ جھولا استعمال کرنے والے لوگوں نے ایک پائی خرچ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کسی ٹوٹی ہوئی سڑک کا ڈیڑھ فٹ یا 3فٹ حفاظتی پشتہ تعمیر نہیں ہوا۔ کسی بھی جگہ کام نہیں ہوا۔ چترال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں نالہ چترال کے اوپر پیدل کے دو پل سیلاب میں بہہ گئے تھے۔ حکومت کے کسی افسر کی معمولی توجہ سے یہ دونوں پل 3مہینوں میں دوبارہ تعمیر ہوسکتے تھے۔ لیکن اب تک ان میں سے کسی پل کی تعمیر کامنصوبہ نہیںآیا۔ یہ چترال کے ضلعی ہیڈکوارٹر اور سب سے بڑے شہر کا حا ل ہے۔ سارے افسر روزانہ ان کھنڈرات سے گذرتے ہیں۔ سکول کے بچوں اور بچیوں کی تکلیفات کو دیکھتے ہیں ۔گورنمنٹ کے اہم دفاتر ان دو پلوں کے قریب ہیں۔ اگر 9مہینوں میں گولدور اور زرگراندہ کے دو پیدل پل تعمیر نہیں ہوسکتے تو دور دراز علاقوں کے عوام کا حال کون پوچھے گا؟ ٹاؤن کے اندر دنین کے مقام پر ڈسٹرکٹ جیل کی عمارت کے سامنے دریا کے کٹاؤ سے سڑک کو بچانے کا کام تین سالوں سے ادھورا پڑا ہے۔ 2015ء میں اس کی ڈیزائن تبدیل کرکے دریا کے رخ کو پھر سڑک کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ مئی کے مہینے تک کام مکمل ہونے کی امید نہیں۔ مئی کے مہینے میں دریا کی طغیانی ایک بار پھر حفاظتی پشتے کے غلط ڈیزائن کی وجہ سے سڑک کو بہا لے جائیگی۔ ایک بار پھر جیل کی عمارت بھی خطرے کی زد میں آئے گی۔ چترال ٹاؤن کے اندر گرم چشمہ روڈ پر سرکاری بجلی گھر کے قریب سڑک جولائی 2015 میں دریا کی طغیانی میں بہہ گئی تھی۔ ایک غریب مزدور کے باغ کو کاٹ کر عارضی سڑک بنائی گئی تھی۔ 9مہینوں میں اس غریب مزدور کو درختوں کے نقصان کا معاوضہ نہیں ملا۔ سڑک کے لئے حفاظتی پشتے کی تعمیر اور نئی سڑک کی تعمیر کا کام شروع نہ ہوسکا۔ بد قسمتی یا خوش قسمتی سے ایم پی اے اور ڈیڈک کے چےئرمین کا گھر بھی اس راستے پر ہیں اور ایک یونیورسٹی بھی اسی راستے پر ہے۔ سرکاری حکام روزانہ باربار اس راستے پر سے گذرتے ہیں۔ دس ہزار گھرانوں پر مشتمل وادی کوشٹ کو ضلع کے دیگر علاقوں سے ملانے والا واحد کوشٹ پل گزشتہ سال کے سیلابی ریلے میں بہہ گیا تھا۔ اب تک اسکی دوبارہ تعمیر ممکن نہ ہوسکی۔ مارچ کے مہینے میں برفانی تودے کی زد میں آکر وادی کریم آباد کے 9افراد کی حادثاتی موت کے بعد فوجی حکام اور وفاقی وزیر مملکت ماروی میمن نے بھی اس راستے پر سفر کیا ۔ مگر بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ گرین لشٹ ، ریشن ، بروز ، بمبوریت ، بریر ، رمبور ، شوغور ، کوشٹ ، موژگول ، بمباغ ، سرغورز ، بونی ، جنالکوچ ، مستوج ، بالیم ، چپاڑی ، بریپ ، کوراغ اور دیگر مقامات پر ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور ٹوٹے ہوئے پلوں کو کسی سرکاری افسر نے اب تک نہیں دیکھا۔ کسی سرکاری دفتر نے رپورٹ نہیں لکھی۔ کسی محکمے کے سربراہ نے معائنہ ہی نہیں کیا۔ اگر انگریزوں کی حکومت ہوتی تو چترال میں سیلاب سے برباد ہونے والی سڑکوں اور پلوں کی مرمت و بحالی میں 6مہینے لگ جاتے۔ اگر پرویز مشرف، اکرم درانی زرداری اور حیدر ہوتی کی حکومت ہوتی تو اس کام میں زیادہ سے زیادہ 8مہینے یا دس مہینے لگ جاتے۔ موجودہ دور میں 9مہینے کسی رپورٹ اور پُرسان حال کے بغیر گذرگئے۔ مزرا غالب نے محبوب سے کہا تھا۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
ہمارے محبوب قائدین مرزاغالب کے محبو ب سے کئی گنا زیادہ سنگدل ہیں۔ اُن کو خبر ہوگئی انہوں نے موقع پر آکر تباہی اور بربادی کا جائزہ لیا۔ 50کروڑ روپے کا رسمی اعلان کیا۔ پھر بھول گئے۔ اب عوام مجبوری کی حالت میں پھر سیلاب کا سامنا کررہے ہیں۔ عوام نے مجبور ہو کر حکومت کو( SOS)کال دی ہے۔ (NAB)سے مطالبہ کیا ہے کہ پچھلے سال کے 50کروڑ روپے کا حساب لیا جائے۔ کسی دیوار میں ایک اینٹ لگائے بغیر 50کروڑ کا فنڈ کدھر گیا؟ 50کروڑ روپے سے دو کلو میٹر کچی سڑک تو بن سکتی تھی۔ 4پیدل پل تو تعمیر ہوسکتے تھے۔ 4جگہوں پر حفاظتی پشتے تعمیر ہوسکتے تھے۔ کیا وزیر اعظم کے اعلان میں اتنی جان بھی نہیں تھی۔ یہ وہ سوال ہے جو چترال کے در و دیوار پہ لکھا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں