558

کسٹم ایکٹ کانفاذاور سیاسی بساط۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

ملاکنڈڈویژن میں کسٹم ایکٹ نافذکرنے کے لئے خیبرپختونخواحکومت نے وفاق کوسفارش کیوں کی تھی،کیاایساکرنے پر عوامی عدالت میں کھڑی پی ٹی آئی واقعی غیرمعمولی سیاسی نقصان اٹھائیگی جس کاخدشہ ظاہرکیاجارہاہے یاوہ اپنی سیاسی ساکھ بچاپائیگی ،کیاواقعی تحریک انصاف سیاسی داوپیچ سے ناآشناہے،اب جبکہ صوبائی حکومت نے عوامی دباؤ کے پیش نظر ایکٹ واپس لینے کے لئے دوبارہ وفاق سے رجوع کرنے کافیصلہ کیاہے توکیاوفاق اس کاخاطرخواہ جواب دے گا، کیاواقعی اس معاملے پرنون لیگ کو ملاکنڈ ڈویژن میں تحریک انصاف کوزیرکرنے اورسیاسی میدان مارنے کاغیرمعمولی موقع ہاتھ لگاہے اور ایسے کئی دیگر سوالات ہیں جن کے لئے پی ٹی آئی اور نون لیگ وہاں کے عوام کو جواب دہ ہیں مگراس پر مزید کچھ کہنے سے پہلے اگرکسٹم ایکٹ لاگوہونے سے جنم لیتی صورتحال کاجائزہ لیاجائے تو ویسے توسیاسی جماعتیں ، اور تاجر تنظیمیں ملاکنڈڈویژن میں ٹیکسوں کے نفاذکا خدشہ ایک عرصے سے ظاہرکرتے ہوئے حکومت کو خبردار کررہی تھیں کہ اگر ایساکچھ بھی ہواتوان کی جانب سے شدید مزاحمت کی جائے گی تاہم حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا حکومت کے زیرانتظام(پاٹا)کے علاقہ ملاکنڈ ڈویژن اور کوہستان میں کسٹم ایکٹ کے باقاعدہ نفاذکی خبروہاں کے عوام پرقیامت بن کرگری جسے سنتے سیاسی جماعتیں، عوام اور تاجرتنظیمیں سراپااحتجاج بن کرسڑکوں پر نکل آئیں اوریوں لگاجیسے حکومت اور عوام کے مابین طبل جنگ بج چکاہو۔ پہلے تویہی کہاجارہاتھا کہ یہ معاملہ مرکزسے متعلقہ ہے اور گورنر کے کہنے پر صدرمملکت نے اس کی منظوری دی ہے اوراگردیکھاجائے توطریقہ کاربھی یہی ہوتاہے سو عوام کی جانب سے احتجاج گورنراور وفاقی حکومت کے خلاف کیاجارہاتھامگراگلے دن جب گورنرہاؤس کے ترجمان کا مؤقف سامناآیا کہ یہ اقدام تو خیبرپختونخواحکومت کی سفارش پر اٹھایاگیاہے تومشتعل عوام نے وفاق کے ساتھ صوبائی حکومت کو بھی نشانے پرلیا۔ گونر ہاؤس کی وضاحت آنے سے قبل نون لیگ کے اہم رہنماء اور وزیراعظم کے مشیر امیر مقام بلاشبہ ایک مشکل صورتحال سے دوچار تھے کیونکہ ایک جانب ان کی پارٹی حکومت تھی اور دوسری طرف معاملہ تھاعلاقائی سطح پر عوامی مفادکااوران دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ کھڑے ہونے کاانہوں نے فیصلہ کرناتھامگرگورنرہاؤس کی وضاحت کے بعدان کے لئے صورتحال یکایک بدل گئی اوراب ن کی مشکل بڑی حد تک کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ مذکورہ کسٹم ایکٹ کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے ردعمل کاذکر ہوتوخیبرپختونخواکے سابق وزیراعلیٰ اورعوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدرامیرحیدرخان ہوتی نے ملاکنڈڈویژن اور کوہستان میں کسٹم ایکٹ کے نفاذمیں وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کوبرابر مورد الزام ٹہرایاہے۔ ان کے مطابق یہ اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے جو کہ 1969 ء میں ریاست سوات اور حکومت پاکستان کے مابین علاقہ کے ادغام کے وقت طے پایاتھاکہ یہاں کوئی ٹیکس نہیں لگایاجائے گابلکہ اس علاقے کوحکومت کی جانب سے خصوصی مراعات دیئے جائیں گے۔پیپلزپارٹی کی مرکزی خاتون رہنماء عاصمہ عالمگیر نے بھی ملا جلا ردعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ ملاکنڈڈویژن میں کسٹم ایکٹ کے نفاذپر ان کی جماعت کوشدید تحفظات ہیں۔ان کے مطابق ملاکنڈڈویژن میں کسٹم ایکٹ نافذ کرنے کاحکومتی فیصلہ سمجھ سے بالاترہے کیونکہ 1973 ء کے آئین میں اس علاقے کو ٹیکس سے مستثنیٰ قراردیاگیاہے۔ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا نے وفاقی حکومت کی جانب سے ملاکنڈڈویژن میں کسٹم ایکٹ لاگوکرنے کے فیصلہ کومکمل طورپر مستردکرتے ہوئے حکومت سے اس کی واپسی کامطالبہ کیاہے ۔جماعت اسلامی کے صوبائی امیرمشتاق احمدخان نے کہاہے کہ حکمران دہشت گردی،سیلاب ،زلزلہ اور سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے ستائے عوام پر رحم کریں ۔انہوں نے الزام لگایاکہ موجودہ حکمران قوم سے ٹیکسوں کی مدمیں اربوں روپے کی رقم لے کربیرون ملک اپنے اثاثے منتقل کر رہے ہیں۔ اس معاملے پرقومی وطن پارٹی کی قیادت نے بھی خاموشی کاجمودتوڑ دیاہے پارٹی کے مرکزی چیئرمین افتاب احمد خان شیرپاؤ کاکہناہے کہ ملاکنڈڈویژن کے عوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور دہشت گردی کی وجہ سے وہاں کی معیشت اور کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے جبکہ سوات دیر اور چترال کی ریاستیں چونکہ بعد میں ملک میں ضم ہوئی ہیں اس وجہ سے ان علاقوں کی نوعیت الگ ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت کے ریاستوں کے ساتھ جو معاہدے کئے گئے تھے ان کے مطابق اور ملاکنڈڈویژن کے عوام کی قربانیوں کوسامنے رکھتے ہوئے کسٹم ایکٹ کے نفاذکااقدام واپس لیاجائے ۔اگرچہ حزب اختلاف سے تعلق رکھتی عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کی جانب سے کسٹم ایکٹ کے نفاذ کے خلاف احتجاج اور حکومت وقت پر تنقید کاطرزعمل توسمجھ میں آتاہے اورمذکورہ دونوں جماعتیں یہ کریڈٹ لینے میں بھی حق بجانب ہیں کہ برسر اقتدار وہ بھی رہیں مگر ایسے معاملات کو نہیں چھیڑاتاہم صوبائی حکومت میں شامل اتحادی کی حیثیت سے جماعت اسلامی اورقومی وطن پارٹی کااس معاملے پر احتجاج کرناحیران کن امر ہے جبکہ یہ واضح ہونے کے باوجودکہ وفاق نے صوبائی حکومت کی سفارش پر یہ اقدام اٹھایاہے محض وفاقی حکومت کو موردالزام ٹہرانابھی اور کچھ نہیں سوائے سیاست کرنے کے۔بہرحال اب جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے کسٹم ایکٹ کے نفاذپر ملاکنڈڈویژن میں عوامی ردعمل اور بے چینی کومحسوس کرتے ہوئے مذکورہ ایکٹ واپس لینے کی غرض سے وفاقی حکومت سے استدعاکرنے کا فیصلہ کیاہے اور ممکن ہے یہ تحریر شائع ہونے تک صوبائی حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کو سمری بھجوائی جاچکی ہوایسے میں اب معاملہ سیاسی رخ اختیارکرچکاہے اور اب دیکھنایہ ہے کہ سیاست کااونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے البتہ یہ تو طے ہے کہ کسٹم ایکٹ کیوں لاگو ہوا،کس نے لاگوکیااور کس کے کہنے پر لاگو کیاگیاکی بحث مذکورہ ایکٹ واپس لینے یانہ لینے کاحتمی فیصلہ ہوجانے کے باوجودختم نہیں ہوگی اور اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے مستقبل میں ملاکنڈ ڈویژن کے سیاسی منظرنامے پر۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں