293

پیروں کے ڈرامے۔۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

پاکستان کی بہت بڑی روحانی گدی کا موجودہ جوان گدی نشین اپنی وسیع و عریض جا گیر لمبا چوڑا فارم ہا ؤس محل نما گھر ڈرائینگ روم جہازی ڈائیننگ ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھانے اپنا شاہانہ طرز معاشرت مریدوں اور خادموں کی بہت بڑی فوج معاشرے اور ملکی سطح پر اپنا اثر و رسوخ یہ سب کچھ دکھا کر اب پیر صاحب مغروراور فاتحانہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے اُسے یقین تھا کہ میں اُس کی قلا با زیوں اور لفظوں کی جگا لی سے ذبح ہو چکاہوں گا جبکہ میں اُس کی ما دیت پرستی اور ڈرامہ با زیوں سے بہت تنگ آچکا تھا ۔ میں اُس کی حرکتوں سے تنگ آکر مو با ئل سکرین پر لوگوں کے آئے Messagesپڑھ اور جوا ب دے رہا تھا ۔ میری یہ حرکت پیر صاحب کے شاہانہ مزاج کو بہت بُری لگی پیر صاحب کے چہرہ غرور تکبر خو د ستائشی کی آگ سے دہک رہی تھا میری بے نیازی اور مو بائل کی طرف تو جہ اُن کی شان کے خلا ف تھی اُن کے چہرے پر پریشانی اور غصے کے بہت سارے رنگ آچکے تھے ۔ وہ تو اپنی دانست میں اپنی ترکش کے سارے تیر ایک ایک کر کے چلا چکے تھے لیکن اُن کا ایک بھی تیر نشانے پر نہیں لگا تھا با توں باتوں میں وہ بہت سارے قیمتی تحائف کا بھی ذکر کر چکا تھے جو واپسی پر اُس نے ہمیں دینے تھے اور ایک بہت پر کشش آفر وہ یہ بھی کر چکے تھے کچھ تحائف انا ج پھل وغیرہ مختلف مو سموں میں آپ کو پہنچ جا یا کریں گے ۔وہ اپنے اخلاقی کر دار روحانی ترقی اور تصوف پر مبنی تعلیمات کی بجا ئے دنیا داری میں لگا ہو اتھا شاید اِس ما دی دنیا میں رہ رہ کر وہ بھی ما دیت کی عالمگیر تحریک کا حصہ بن چکا تھا ۔ ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی حیرت تھی کہ مُجھ فقیر عاجز کو وہ کیوں متا ثر کر نے پر تُلا ہوا تھا ۔ اُسے مجھ فقیر سے کیا کام تھا میں تو صبح سے اُس کو خا موشی سے دیکھ رہا تھا سب کچھ وہ ہی کہے جا رہا تھا میں تو خا موش تما شائی بنا اُس کی مضحکہ خیز حر کتوں کو دیکھتا جا رہا تھا نہ میں اعتراض کر رہا تھا اور ہی خو شامدی قصیدے پڑھ رہا تھا وہ شاید مجھ سے اپنی بہت زیا دہ تعریف اور تا بعداری ما نگ رہا تھا لیکن وہ شاید یہ بھو ل گیا تھا یا اُس کا میرے جیسے پا گلوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا اُسے اِس حقیقت کا ادراک نہیں تھا کہ جو ایک بار عشق الہی کے سفر پر چل پڑے دنیا پھر اُس کے لیے بے معنی ہو جا تی ہے پھر سونے چاندی ہیرے جوا ہرات اور دنیا کے خزانے اُس کے لیے پتھر کے ٹکڑوں کے برابر ہو تے ہیں اور یہ ہے بھی سچ کہ جس پر خالق کا ئنا ت کے عشق کا رنگ چڑھ جا ئے پھر اُس پر دنیا کے کسی رنگ کا اثر نہیں ہو تا کیو نکہ خدا کے عشق کا رنگ اتنا گہرا اور خو بصورت ہے کہ دنیاوی تما م رنگ پھیکے پڑ جا تے ہیں ۔ اور یہ پیر صاحب دنیا وی رنگوں کے چکر میں صبح سے اپنا اور ہما را وقت بر باد کر رہے تھے ۔ میں با ر بار اپنے دوست سے واپسی کا پو چھ رہا تھا کہ ہم نے واپس کب جا نا ہے لیکن میرا دوست تو شاید بہت پرانا اُن کا مرید یا چاہنے والا تھا اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ واپس جا نے کی اجا زت ما نگتا ۔میری بے زاری بے نیازی پیر صاحب کو کھا ئے جا رہی تھی میرے روئیے کو پیر صاحب نے اپنی تو ہین سمجھا کہ میں نے اُن کے شاہی دربار میںآکر بہت بڑی گستاخی بلکہ بے شما ر گستا خیا ں کیں ہیں اب پیر صاحب کے چہرے پر غرور اور فا تحا نہ رنگ کی جگہ پریشانی والا رنگ پھیلتا جا رہا تھا ۔ اب پیر صاحب گہری سوچ میں غرق نظر آئے وہ کسی بھی صورت ہا ر ماننے کو تیا ر نہیں تھے کیونکہ اُنہوں نے زندگی میں کبھی ہا ر کا ذائقہ نہیں چکھا تھا ۔پیر صاحب نے ساری زندگی انسانوں کو کیڑے مکو ڑوں کی طرح روندا تھا مسلا تھا اُن کو ہمیشہ بر تری کی عادت تھی لہذا اُسی بر تری جیت کے لیے وہ یقیناًکسی نئی سو چ میں گم تھے اور پھر اچانک اُن کی پریشانی دو ر ہو تی نظر آئی ایک دم و ہ چست ہو گئے شاید اُن کے دما غ میں کو ئی نیا خیال یا چال آگئی تھی اَس نئے خیا ل کے ساتھ ہی اُن کا چہرہ ایک با ر پھر تکبر غرور کے رنگ سے چمکنے لگا پیر صاحب کو اپنی اِس چال کے کامیا ب ہو نے کا پورا یقین تھا اب انہوں نے اپنے ایک خا دم کو اشا رہ کیا وہ دوڑتا ہوا آکر جھک کر کھڑا ہو گیا پیرصاحب نے آہستہ سے اُسے کچھ کہا تو وہ تیزی سے با ہر چلا گیا ۔ پیرصاحب کے اچانک بدلتے روئیے سے ہم بھی الرٹ ہو گئے کہ پتہ نہیں اب پیر صاحب کو نسی نئی حر کت کر تے ہیں اب کیا نیا ڈرامہ کر تے ہیں اب ہم سب اشتیاق اور متجسس نظروں سے پیر صاحب کو دیکھ رہے تھے وہ ملا زم جلد ہی واپس آگیا اُس کے ہا تھ میں تھا ل نما برتن تھا جس پر سفید ریشمی ہا تھو ں کے دستانے پڑے تھے ۔ پو رے ادب و احترام سے پیر صاحب کو ریشمی دستا نے پیش کئے گئے ہم حیران تھے کہ اچانک دستانے پہننے کی ضرورت کیوں پیش آگئی ابھی ہم دستانوں کے با رے میں سو چ ہی رہے تھے کہ اچانک بیس پچیس لو گ انتہا ئی مو دب ہو کر کمرے میں آکر سر جھکا ئے کھڑے ہو گئے ہم حیران کہ اب کو نسا ڈرامہ ہو نے جا رہا ہے اب پھر پیر صاحب نے اپنے تر کش کا آخری تیر بھی چلا دیا مغرور اور گہری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہو ئے ب�آواز بلند بو لے یہ لو گ ہم سے بیعت ہو نے آئے ہیں ۔ اب انہوں نے ہمیں آفر کی کہ اگر آپ بھی روحانیت تصوف کی لا زوا ل دولت لو ٹنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بھی بیعت کر لیتے ہیں انہیں یقین تھا کہ ہم بھی بیعت کی غرض سے آئے غلا موں میں شامل ہو جا ئیں گے ۔ اُن کی اِس پر کشش آفر کے جوا ب میں میں خا موش گہری نظروں سے اُن کو دیکھتا رہا اور اپنے چہرے کے تا ثرات سے پیر صاحب کو بتا دیا کہ اُن کے اِس خزانے کو لوٹنے کا ہما را کو ئی ارادہ نہیں ہے ۔ پیر صاحب نے ہما ری عدم دل چسپی دیکھ کر آنے والے غلام نما انسانوں کو قریب آنے کا اشارہ کیا اب پیر صاحب کا خلیفہ حرکت میں آیا آنے والوں کو لا ئن میں کھڑا کیا پھر لا ئن کے شروع میں بندہ پیر صاحب کے پیروں میں بیٹھ گیا با قی سارے اُس کے پیچھے لا ئن میں بیٹھ گئے ۔ پیر صاحب نے اپنے گلے میں پڑے ہو ئے چادر نما کپڑے کو اتا را اور قدموں میں بیٹھے ہو ئے مر د کو ایک کو نا پکڑا دیا اُس شخص کے پیچھے والے نے پہلے کی کمر پر ہا تھ رکھ دیا اِسی طرح آنے والوں نے ایک لا ئن میں ایک دوسرے کی کمر پر ہا تھ رکھ دیا تما م افراد زمین پر اپنی گر دنیں جھکا ئے بیعت کی سعادت سے سرفراز ہو نے جا رہے تھے۔ پیر صاحب کے ہا تھوں میں دستانوں کی وجہ، میں وطن عزیز کی اور بھی بہت ساری گدیوں پر دیکھ چکا تھا کہ اکثر پیر صاحب بیعت کر نے سے پہلے ہا تھو ں میں دستانے اِس لیے پہنتے ہیں کہ کہیں الرجی نہ ہو جا ئے کسی کی بیما ری پیر صاحب کو نہ لگ جا ئے یا جو ش عقیدت میں اگر کو ئی مرید مر شد کے ہا تھ چو منا چاہے تو جلد با زی میں مرید کا نا خن مر شد کریم کو زخمی نہ کر دے راولپنڈی کی بہت بڑی روحانی گدی پر جب میں نے پہلی دفعہ اپنے پسندیدہ پیر صاحب کو دستانے پہنے دیکھا اور وہ بیعت ہو نے والوں کو دھکے دے کر آگے کر رہے تھے مرید بیچارے اپنی روحانی پیا س کی با ت کر نا چاہتے تھے لیکن ان کی با ت سنے بغیر انہیں تقریباً دھکے دے کر آگے کر دیا جا تا ۔ میں جو اُن پیر صاحب کا عقیدت مند تھا اُن کی اِس چھو ٹی حر کت کے بعد آج تک اُن کی طرف مُڑ کر بھی نہیں دیکھا ۔ محترم قارئین آپ نے بھی وطن عزیز کی بے شما ر روحانی گدیوں پر اِن دلہا نما فلمی اداکاروں کو ریشمی دستانوں میں دیکھا ہو گا ۔ اب جو پیر اپنے مرید سے ہا تھ ملا نا پسند نہیں کر تا روحا نی فیض کسی کو کیا دے گا ۔ اگر مرید بیچارے عبا دت ریا ضت مجا ہدات ذکر اذکار کے با رے میں پوچھنے کی جسا رت کر یں تو اُن کو کہا جا تا ہے کہ وہ اُن کی چھپی ہو ئی کتا بوں کا مطالعہ کر یں اُن کتا بوں میں سب کچھ بتا دیا گیا ہے اب کو ئی ایسے گدی نشینوں سے یہ پو چھے کہ اگر کتابوں کو دیکھ کرہی راہنمائی اور روحانی پیا س بجھا نی ہے تو پھر آپ لوگوں کے دروں پر ما تھے رگڑنے اور حلا ل کی کما ئی نذر نیاز کے طور پر کس لیے دی جا ئے ۔ یہاں بھی ایسا ہی نظا رہ تھا سادہ لو ح معصوم لو گ آنکھوں میں روحانیت تصوف کے چراغ جلا ئے اپنے خالی دامن بھرنے اور پیا سی روحوں کی پیاس بجھا نے آتے تھے وہ اِس با ت سے بے خبر تھے کہ وہ ایک ایسے ٹرانسفار مر کے پا س آئے ہیں جس میں خو د ہی کر نٹ نہیں اگر کسی ٹرانسفارمر میں ہی کر نٹ نہیں ہو گا تو وہ آنے والے زائرین کی اندھی بے نور روحوں کو کس طرح روشنی کی دولت عطا کر ے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں