288

عاصمہ جہانگیر کانفرس۔۔۔۔۔ نغمہ حبیب

20 اور 21 نومبر کولاہور میں عاصمہ جہانگیرکی بیٹی منیزے جہانگیر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس کاانعقاد کیا۔ سوال تو یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اس بین الاقوامی کانفرنس کے وسائل و ذرائع کہاں سے آئے یہ بات مشکوک اس لیے بھی ہے کہ اس کانفرنس کے نام پر ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں کو اکٹھا کیاگیا ایسی ذہنیت جس کا جواب دینے کے لیے وہاں کوئی نہ تھا۔ کہنے کو موضوعات مختلف تھے لیکن تان ہر ایک کی آکر ایک ہی ادارے پر ٹوٹتی رہی اور وہ تھا پاک فوج۔ اسے ہماری بدقسمتی کہیئے کہ وہ فوج دنیا جس کی صلاحیتوں کی معترف ہے ایک مخصوص مکتبہء فکر کو اس کے خلاف اپنے ہی ملک میں اکٹھا کیاگیا اورآزادیئ اظہار رائے کے نام پر اس کے خلاف دشنام طرازی کی گئی۔ موضوع عدالتوں کے بار ے میں تھا یا انسانی وقار اور حقوق، بات فوج کے متعلق ہی ہوتی رہی وہ صحافی جو ملک کے خلاف کچھ بھی بول کر خود کو بے باک ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بولتے رہے اوراپنے ہی جیسے حاضرین سے داد لیتے رہے اور سمجھتے رہے کہ وہ کوئی بہت بڑی تاریخ بنارہے ہیں کیونکہ وہ کوئی تاریخ ساز شخصیت ہیں جبکہ یہاں کچھ نیا نہیں کیا جا رہاتھا۔ یہ تمام شخصیات شہر ت کے اس درجے تک پہنچے ہی اس سیڑھی سے ہیں کہ پاک فوج کے خلاف بولو اور دشمنوں اور ملک دشمنوں سے داد بھی وصول کرتے جاؤ اور اپنی قیمت بھی۔ اس کانفرنس کے ذریعے بھی انہیں سب کچھ مہیّاکیا گیا اور وہ حق ادا کرتے رہے۔یہاں عدلیہ کی ناکامی کے پیچھے فوج کا ہاتھ قراردیا گیا۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہماری زمین کے ایک معمولی تنازعے کافیصلہ دس بارہ سال میں کیاگیا یعنی کئی سال تاریخیں بھگتنے کے بعد ہماری چند مرلے زمین ہمیں واپس دی گئی اور یقین کیجیئے کہ نہ ہمارا تنازعہ کسی فوجی سے تھا اورنہ ہی فوج نے ہمارے مقدمے میں کوئی مداخلت کی تھی گواہ بھی موجود تھے اور درکار ہر قسم کے کاغذات بھی اور وکیل کے پیسے بھی لیکن نہیں تھاتو ذہنی سکون کہ نجانے کیا فیصلہ ہوا اور یہ بھی بتادوں کہ مدمقابل بھی کوئی بار سوخ شخص نہیں تھا یعنی نااہلی صرف عدالت کی تھی۔ یہ تو ایک ذاتی تجربہ تھا اگر مقامی،صوبائی اور قومی سطح پر زیر التواء مقدمات کی بات کی جائے تو یہ لاکھوں میں ہیں اور ان مقدمات سے فوج کا نہ کوئی تعلق ہے نہ لینا دینا۔ کئی صحافی جنہوں نے شہرت ہی اس چیز سے پائی کہ انہیں اغوا کیا گیا، مارا پیٹا گیایا انہیں گولیاں لگیں لیکن وہ ہمیشہ محفوظ رہے ہاں مشہور ضرور ہوئے سب نے اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار فوج کو ٹھہرایا صرف ذمہ دارہی نہیں ٹھہرایا بلکہ اس کے خلاف زہر اُگلتے رہے اور ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے کہ اپنی ہی فوج کو بد نام کیا جائے اوراپنی قیمت حلال کی جائے۔ علی احمد کُرد نے خود کہا کہ ہماری عدلیہ اس وقت 130ممالک میں سے 126نمبر پر ہے یعنی اعتراف جُرم تو ان سے ہوہی گیا لیکن یاد آیا کہ وکیل ہونے کے ناطے کام تو انہی عدالتوں کے ساتھ کرنا ہے تو بات کو لے گئے فوج کے دباؤ تک بلکہ عدلیہ پر فوج کی حکمرانی تک اور اس فوج کو جو دنیا کی دس بہترین افواج میں شامل ہے کو 126ویں نمبر پر عدلیہ کی ناکامی کا ذمہ دارٹھہرایا آخر عدلیہ کو ناراض کرکے لاکھوں کروڑوں کی فیس پر سمجھوتہ کیسے کیا جاسکتا تھا لہٰذا”ایک جرنیل یعنی صرف ایک جرنیل“ (یہ کُرد صاحب کے الفاظ ہیں)کو بائیس کروڑ عوام کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا دیا اور جیسا کہ میں نے پہلے لکھاکہ ایک ہی ذہنیت کے لوگ بلائے گئے تھے لہٰذا ”تماشائیوں“نے آزادی آزادی کے نعرے لگا کر خوب ہلڑ بازی کی۔ نہ معلوم انہیں کونسی آزادی چاہیئے اور یہ ایک آزاد ملک میں رہ کر اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کی بجائے غیروں کے اشارے پر کیسے چل لیتے ہیں۔اس بات کا کوئی احساس نہیں کرتے کہ یہی فوج ان کی آزادی کی محافظ ہے اور اگر یہ نہ ہو تو دشمن انہیں ترنوالہ ہی سمجھے۔ اس کانفرنس میں مقررین کو موضوع جو بھی دیا گیا اس معاملے میں خرابی کا ذمہ دار فوج کو ہی گردانا گیا جس طرح عدلیہ کی ورلڈ رینکنگ میں 130میں 126ویں نمبر پر لانے کی ”ذمہ دار“فوج تھی اسی طرح میڈیا کی ہر خرابی کی واحد وجہ بھی فوج ہی کو ٹھہرایا گیا اور تمام ایسے اینکرز نے جو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں نے اپنی ”بے روزگاری“کی ذمہ داری بھی فوج کے کھاتے میں ڈال دی۔ حامد میر، مطیع اللہ جان، ابصار عالم حتیٰ کہ عنبر سمشی جیسی اوسط درجے کی اینکرنے بھی اپنی بے روزگاری کی ذمہ داری آئی ایس آئی اور فوج کے سر دھر دی یعنی حیرت ہے ان سب کے مطابق میڈیا کو فوج اور آئی ایس آئی کنٹرول کر رہی ہے جبکہ کئی چینلز اور اینکرز کو سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ڈور کہیں باہر سے بیٹھ کر ہلائی جارہی ہے۔اور سوال یہ بھی ہے کہ جو اینکرز اور صحافی کام کررہے ہیں کیا وہ سارے فوج اور آئی ایس آئی کے لیے کام کررہے ہیں اس کا جواب یہ بر سر روزگار خواتین و حضرات اینکرز اور صحافی ضرور دیں۔اس مخصوص گروپ کے مطابق پاکستان میں ہر مسئلے اور خرابی کی ذمہ دار فوج ہے اگر یہ ادارہ اتنا ہی بگاڑ کا باعث ہے تو پھر تو خود اس کی حالت بھی بُری ہونی چاہیئے تھی لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہے اور ملک میں سب سے زیادہ منظم ادارہ ہی یہی ہے بلکہ دنیا کی سر فہرست منظم ترین افواج میں سے ہے۔ اب ان لوگوں کے لیے ایک مشورہ ہے کہ خود اپنے اندر کی خامیاں تلاش کریں اور انہیں درست کریں۔ آپ لوگ دوسروں کی غلطیوں کو تو منظر عام پر لاتے ہیں اچھا کرتے ہیں لیکن آپ لوگوں کی نیت خرابی کا خاتمہ نہیں اپنی شہرت ہوتی ہے جو آپ کو بمعہ مال ودولت کے مل جاتی ہے اور آپ کا موٹر سائیکل اور کوارٹر سے شروع ہونے والا سفر چندسالوں میں بڑے بنگلوں اور کوٹھیوں اور دنیا کی مہنگی ترین کاروں تک پہنچ جاتاہے جب کہ ایک عام آدمی ایک با عزت گھر یا گاڑی کے لیے اپنی پوری زندگی سرف کر دیتا ہے۔یہی حال عدالتوں اور وکلاء کا ہے جہاں انصاف بکتا ہے اور اتنا مہنگابکتا ہے کہ عام آدمی اسے خرید بھی نہیں سکتا۔وہ علی احمد کُرد جسیے وکلاء کی لاکھوں کروڑوں کی فیس ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اس سے محروم ہی رہتا ہے، ہاں ہمارے منصف یعنی جج صاحبان لاکھوں کی تنخواہ اور مراعات کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔ جناب الزام دوسروں کو نہ دیں اپنی اصلاح کیجیئے یہ ملک اور اس کے غریب عوام آپ کے مشکور ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں