268

داد بیداد….. نصف صدی کا قصہ ہے ..…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

حفیظ جا لندھری کے مشہور مصرعے کا یہ ٹکڑا بار بار یا د آتا ہے بار بار دہرا نے کو بھی دل چا ہتا ہے اس میں معنی اور مفہوم کا سمندر چھپا ہوا ہے سو شل میڈیا پر نصف صدی پہلے کے منا ظر کی جو تصویر یں آتی ہیں وہ مو جو دہ ترقی یا فتہ دور کا نو حہ بن جا تی ہیں پشاور میں نصف صدی پہلے کا آسا ما ئی دروازہ آج کس حا ل میں ہے؟ نو شہرہ، مردان، ایبٹ اباد، بنو ں اور ڈی آئی خا ن کے کسی بھی چوک کی پرانی تصویر لیکر نئی تصویر کے ساتھ موازنہ کریں آپ کو پھوٹ پھوٹ کر رونا پڑے گا دور دراز دیہا ت اور پہا ڑی علا قوں کا حال بھی ایسا ہی ہے جن نہروں پر گاوں کے لو گ پا نی پینے آتے تھے وہ نہریں اب گند ی نا لیاں کہلا تی ہیں جن زمینات پر گندم، چاول اور جوار کے کھیت لہلہا تے تھے ان زمینات پر سریا اور سیمنٹ کی فصل اُگ آئی ہے جو لوگ آج شہروں کے اندربڑے گھروں میں رہتے ہیں ان کو زندگی میں ہر سہو لت میسر ہے پھر بھی جب گاوں کے کچے مکا ن کی یا د آتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے چکدرہ، تھا نہ، کبل، چترال ارناوی اور کنڑ کا چاول آج بھی لو گوں کو یا د ہے وہ چاول لذت کے ساتھ ساتھ خو شبو اور مہک میں اپنی مثال آپ تھا آج بیس اقسام کے چاول الگ الگ پکا ئیں ان میں در جنوں اقسام کے مصا لحے بھی ڈال دیں نصف صدی پہلے پا نی میں ابلے ہوئے چاول کا مزہ نہیں ہو گا وہ خوشبو اور مہک نہیں ہو گی نصف صدی پہلے ہم لو گ چھٹیاں گذار کر سکول جا نے کے لئے چار دنوں کے پیدل سفر پر نکلتے تھے شام کو کسی بستی سے گذر تے تو پوری بستی خوشبو بر سا تی تھی صبح کے وقت کسی گاوں سے گزرتے تو پورا گاوں خوشبو سے معطر لگتا تھا فیض نے کہا ؎

ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن

یا د وں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جا تی ہے

ہمارے راستے میں پڑنے والے دیہات کی یہ عطر بیز خو شبو اخروٹ کے تیل کی خوشبو ہوا کر تی تھی شام کو چاول کا تڑ کا ہو تا تھا صبح کے وقت پراٹھے اسی تیل میں تلتے تھے نصف صدی گذر نے کے بعد آج ہم انہی دیہا ت سے گذر تے ہیں تو ڈیزل، پیٹرول، مو بل آئیل اور مٹی کا تیل کی بد بو آتی ہے سینلسروں کا دھواں ہمارا استقبال کر تا ہے ہم سکول میں پڑھتے تھے تو دکا ن سے مر غی اور انڈا لا نے کا نا م نہیں سنا تھا ہم گھروں سے مر غی اور انڈا لے جا تے تھے دکا ن سے چا ئے اور نمک لاتے تھے ہمارے سکول کے استاد نے ایک آد می کو دودھ کے لئے پیسے دیے تو اُس نے یہ کہ کر واپس کر دیا اگر آج میں نے دودھ کے لئے پیسے لئے تو کل میرے بچوں کے لئے پیغور ہو گا کہ تمہا را باپ دوھ بیجتا تھا نصف صدی گذر نے کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پا نی بہہ چکا ہے جس کی تنخواہ فقط 40روپے تھی اس کا بیٹا دو لا کھ روپے تنخواہ لیتا ہے لیکن انڈا، مر غی اور گوشت کا وہ مزہ اور لطف نہیں ہے، پھلوں میں وہ مٹھا س نہیں سبزیوں میں وہ لذت نہیں، وہ مٹھا س، وہ لذت کدھر گئی؟ آج گھی بھی کا رخا نے کا ہے انڈا بھی کا رخا نے کا ہے مر غی بھی کا رخا نے کی ہے کا ر خا نے میں سب کچھ ہے فطرت کا حسن نہیں زمین کی مٹی کو مصنو عی کھا د نے آلو دہ کر دیا، ہواؤں کی خو شبو کو کیڑے مار دوا وں نے زہر یلا کر دیا یہ دور جدید کا علم اور فن ہے جس نے ہم سے خا لص خوراک، خا لص ہوا کو چھین لیا خا لص پا نی کو چھین لیا اب ہم گذری ہوئی نصف صدی کو یا د کر کے صرف ترستے ہیں اور کہتے ہیں ”نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں