441

پاکستان کے سیالکوٹ شہر میں مذہبی جنونیت…….تحریر: ایس شہاب الدین

عدم برداشت ، بے بنیاد الزمات، اور مذہبی انتہا پسندی کا ایک اور وار، آئے کہانی سنتے ہیں۔یہ بد نصیب سری لکن پریانتھا کمارا سیالکوٹ کے ( راجکو )فیکٹری میں پروڈکشن منیجر تھا، ان کے جیسے بہت سے کورین، جاپانی اور بنگلہ دیشی منیجرز کراچی سیالکوٹ میں بین الاقوامی معیار کے اور ڈیمانڈ کے مطابق پروڈکشن کر رہے ہیں۔ اور یہ غیر ملکی ہمارے ملک کے برآمدات میں اضافے کی وجہ بھی ہیں۔
ہماری عمومی روایات اور سوچ کے مطابق ہر خالی جگے، پتھر، دیوار، باتھ روموں، کاغذ، ٹیبل اور مشینوں پر اپنے اپنے خیالات ، اپنے عقائد، درود شریف، جنت میں اپنے پسند کے پودے لگانے کے تسبیحات، اور دوزخ کے عذاب سے بچانے کے لیئے کلمات، سیاسی نعرے یہاں تک پسندیدہ لڑکیوں کے نام موبائل کے ادھورے نمبرز بھی لکھ دیتے ہیں۔کسی کو زندیق، کسی کو کافر، کسی سے بائیکاٹ، کسی سے نفرت کی وجہ ڈیکلئر کرتے ہوئے پوسٹرز، اسٹیکرز، پمفلٹ اور اشتہارات لگاتے وقت ہم باقی دنیا کے سامنے اپنے مکروہ چہرہ بظاہر چھپاتے تو ہیں، مگر ہماری بے شرمی عیاں رہتی ہیں۔نفریتیں لکھنے کا یہ مشغلہ باتھ روموں میں تک کی جاتی ہے ،
عام اوقات اور جگہوں میں ان لکھائی کی خاص اہمیت نہیں، ملٹی نیشنل کمپنیز دفاتر ، سرکاری اداروں، فیکٹریز ،بنک یا بڑے کاروباری مقامات پر باس کی آمد، آڈٹ اور کوئی خاص مواقع پر ان پوسٹرز کو ہٹایا جاتا ہے، اور منیجرز ان تمام کاموں کے نگرانی کے زمہ دار ہوتے ہیں۔
بد قسمت سری لنکن منیجر اور راجکو کے ساتھ بھی ان دنوں FILA نامی برانڈ وزٹ کے لیے آنا تھا، منیجر نے اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہوئے دیواروں سے پوسٹرز ہٹائے اور جھنڈے اکھاڑنے تھے، الزام کے مطابق پوسٹر پر یا حسین لکھا تھا، اور اپنے اس عمل کی وجہ سے وہ واجب القتل ٹھرایا۔اور گستاخی کا مرتکب قرار پایا۔
آج راجکو کمپنی میں بھی یہ ہوا، کچھ دن بعد ایک بڑے برانڈ FILA کا اس کمپنی میں وزٹ ہونا تھا تو سری لنکن مینیجر نے اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہوئے دیواوں سے کاغذ اور مشینوں سے جھنڈے اتروانے کے جرم میں اپنی جان دے دی۔
راجکو کمپنی کے کئ ملازمین بتا رہے ہیں کہ سری لنکن مینیجر کا صبح سے صفای کے معاملے پر جھگڑا چل رہا تھا اور انہوں نے گستاخئ جیسا کوئ کام نہیں کیا۔
بحثیت ملازم ہم لوگ سخت باس اور مینیجرز کو یقینا پسند نہیں کرتے ، اور کام چوری کی وجہ سے نام کما بھی لیا ہے۔
بے چارہ کیا کرتا؟ اردو اور عربی اسکو آتا نہیں تھا، غیر مسلم، پردیسی،اور مسافر، انگریزی میں اپنی جان بچانے کی خاطر کتنی وضاحتیں دینے کی کوشش کی ہوگی، کھینچنے سے، سر پر ڈنڈا مارتے وقت اس پر بیت گئی ہوگی؟ منہ پر پتھر مارتے وقت گھر میں بے غم بچے ،اماں جی اور بیوی کتنی یاد ائی؟ گستاخ کی سزا سر تن سے جدا بولتے وقت کتنی بار معذرت کی؟ آخری بار کیا سوچا ہوگا؟ کتنی بار افسوس کیا؟ اسکے زخمی جسم کو جلاتے وقت ان کی اماں جی پر کیا چل رہی ہوگی؟
ہم نیوزی لینڈ سے کرکٹ جیتے ہوئے سیکورٹی سیکورٹی کا شور مچایا تھا، اب زندہ انسان کو اپنی مقدس مذہب کے توہین کے بے بنیاد الزام پر جلا کر دنیا کو کیا باور کرایا۔
یہ نہ تھمنے والا سلسلہ صرف سیالکوٹ میں پہلے یا آخری بار نہیں ہوا۔ ہم مشال خان جیسے کھلے زہن کے مالک نوجوان کو 2017 بے ثبوت توہین مذہب کا مجرم قرار دیکر گھسیٹتے ہوئے مارا تھا۔ ہمیں وہ بھی یاد ہے، جب2014 میں عیسائی جوڑوں کو پانچ ماہ کی بچی کے ساتھ ضلع قصور میں اینٹوں کے بٹھے میں زندہ جلایا تھا۔
یہ حقیقت سب تسلیم کرنا ہے، یہ بے رخم اور وحشی درندے کسی بھی دیندار اور ایماندار شخص کو کسی بھی وقت توہین مذہب یا توہین رسالت(ص) اور توہین مقدسات کا بے ثبوت الزام لگا کر جان سے مار دے سکتے ہیں

فضا میں بُو ہے۔ گوشت جلنے کی بُو؟ دیکھو تو ذرا۔ آگے بڑھ کے دیکھو آیا گوشت جلنے کی بُو تو نہیں ؟ نہیں۔
ہم سب کے ضمیر جلنے کی بُو ہے بد بختو۔ اس کی ماں کو اب تک خبر مل گئی ہوگی۔ اولاد اور والدیں پر کیا گزر رہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں