320

وحشت وبربریت کا ننگا ناچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پروفیسر مظہر

احسن الخالقین نے تخلیقِ کائنات کے بعد انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر اپنی نیابت عطا کی۔ اُسی نے قیادت وسیادت کے پیمانے مقرر کرتے ہوئے فرمایا ”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکواۃ دیں گے، نیک کاموں کا حکم دیں گے اور برے کاموں سے روکیں گے“ (سورۃ الحج 41)۔ مگرہم یہ حکم فراموش کر چکے اسی لیے اسلام کی یہ تجربہ گاہ شیاطین کا ایسا جنگل بن چکی جس میں کریہہ النظر مخلوق دندناتی پھرتی ہے۔ ہر جا ظلمت کے ڈیرے اور خرمن کو جلا دینے والے تُند خو شعلے۔ سری لنکا کے شہری پریانتھاکمارا کی شعلوں میں گھری لاش یہ یقین دلاتی ہوئی کہ ہمارے ہاں عرصہئ ہستی اب گل و نسترن نہیں اُس تیشہ زنی کا نا م ہے جس میں فقط رسمِ چنگیزی ہی رہ گئی ہے۔ اُس کے جسم کی ٹوٹتی ہڈیاں سراپا سوال کہ اے مسجودِ ملائک کیا روحوں میں ارتعاش پیدا ہوا؟۔ کیا پیشانی عرقِ ندامت سے تَر ہوئی؟۔ نہیں بھائی! کوئی ارتعاش پیدا ہوا نہ عرقِ ندامت۔ اب ہماری روحیں سراپاالتہاب نہ کرب کی کوئی لہرکیونکہ ہم ایسے مناظر کے عادی ہو چکے۔ ایک پریانتھا ہی کیا اِس کینوس پر تو ہر روز ایسی ہی تصویریں ابھرتی ہیں، کس کس کا ماتم کریں۔ ہمارا سرمایہ فقط گھڑے گھڑائے مذمتی بیان جن کا ہم بھرپور استعمال کرتے رہتے ہیں اور بَس۔
ہم دراصل رَبِ لم یزل کا یہ فرمان فراموش کر چکے کہ ”جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی انسان کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو بچا لیا۔ مگر اِن کا یہ حال ہے کہ ہمارے رسول پے در پے اِن کے پاس کھلی ہدایات لے کر آتے رہے، پھر بھی اِن میں سے بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں“ (سورۃ المائدہ 32)۔ اِس آیتِ مبارکہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فرمان عالمِ انسانیت کے لیے ہے جس میں مسلم وغیر مسلم کی کوئی شرط نہیں۔ یہاں یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ کسی انسان کی جان یا تو خون کے بدلے میں لی جا سکتی ہے یا پھر زمین پر فساد پھیلانے کے سبب۔ اِس کے علاوہ کسی بھی صورت میں خون نہیں بہایا جا سکتا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ خونِ ناحق ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ناحق خون بہانے والوں کے بارے میں فرمانِ ربی ہے ”اُس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اللہ اُس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا۔ اللہ نے اُس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے“ (سورۃ النساء 93)۔
روح میں اترتی کرب کی لہریں سراپا سوال کہ کیا ارضِ وطن درندوں کے مسکن میں ڈھل چکی؟۔ کیا نِت نئے سانحات ہی ہمارا مقدر ٹھہرے؟۔ کیا عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے محسنِ انسانیت ﷺ کا درس ہم فراموش کر چکے؟ اور کیا جبلتوں میں خون کی بُو رَس بس چکی۔ رہا یہ سوال کہ ذمہ دار کون؟ تو اِس کا جواب رَبِ علیم وخبیر نے خود ہی دے دیا جس کا فرمان ہے ”وہی ہے جس نے تمہیں زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے تاکہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اُس میں تمہاری آزمائش کر سکے“ (سورۃ الانعام 165)۔ یہی فرمان متفق علیہ حدیثِ رسولﷺ میں یوں بیان ہوا ”جو لوگوں پر حاکم ونگہبان ہے اُس سے (روزِ قیامت) اُس کی رعیت کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا“۔ ہمارے طاقت کے نشے میں دھت حکمران مگر یہ سب کچھ فراموش کر چکے۔ وہ تو کرسی کے حصول کی کشمکش میں باہم دست وگریبان۔ اُنہیں تو ”نظریہئ ضرورت کی چاٹ لگ چکی۔ وہی نظریہئ ضرورت جو تاریخِ وطن کے ہر صفحے پر بَدنما داغ۔ وہی نظریہئ ضرورت جس کا گھُن زنجیرِ عدل کو چاٹ چکا۔ وہی نظریہئ ضرورت جس کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو تختہئ دار کے سپرد کیا گیا اور وہی نظریہئ ضرورت جس کے تحت ایک آمر نے دین کی آڑ میں گیارہ سال حکومت کی۔ وہی نظریہئ ضرورت جس کے تحت محسنِ پاکستان کو طویل نظربندی کا دُکھ جھیلنا پڑا اور وہی نظریہئ ضرورت جس نے ایک کمانڈو کو امریکہ کے سامنے چاروں شانے چِت کر دیا۔ وہی نظریہئ ضرورت جس نے نوازلیگ کے وزراء کی چھٹی کروائی اور وہی نظریہئ ضرورت جس کے تحت تاریخِ عدل کا متنازع ترین فیصلہ سامنے آیا۔ یہ نظریہئ ضرورت ہی کی کرشمہ سازیاں ہیں جن کے تحت پہلے ایک گروہ پر بھارتی فنڈڈ دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا اور پھر اُسی گروہ کے آگے گھٹنے ٹیک کر پھولوں کے ہار پہنائے۔ اب اُسی گروہ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی سرگوشیاں جو ہمارے اخلاقی زوال کی داستان سناتی ہوئیں۔
ہماری روحانی اور اخلاقی اقدار کے زوال کی انتہا یہ کہ ہم نے اسلام کی اس تجربہ گاہ، اِس نظریاتی ریاست میں توہینِ رسالتﷺ کے قانون کو ذاتی عناد، فرقہ وارانہ عصبیتوں اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اب نسلِ نَو کی ذہنی اور فکری پرورش یا تو ”جلاؤ، گھراؤ، مارو، مرجاؤ کے زیرِاثر کی جا رہی ہے یا پھر فرقہ وارانہ عصبیتوں کی زیرِنگرانی۔ پریانتھا کمارا کے قتل کی مذہبی رَہنماؤں سمیت سبھی نے پُرزور مذمت کی۔ مذمت کرنے والوں میں وہ مذہبی جماعت بھی شامل تھی جس کا دامن گیارہ بیگناہوں کے تازہ خون کی چھینٹوں سے تَر ہے۔ عرض ہے کہ ابھی اُن گیارہ شہیدوں کے گھروں میں صفِ ماتم بچھی ہے، ابھی زخم تازہ اور نوحے جاری ہیں۔ اِس لیے ازراہِ کرم
عدالت کو وہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دھُلا ہے
پریانتھا کمارا سمیت سبھی بے گناہوں کے خون کے صرف حکمران ہی نہیں ہم سبھی ذمہ دار ہیں۔ ہم ووٹ دیتے وقت بھی یہ مدِنظر رکھتے ہیں کہ کل کلاں ہمارے ناجائز کاموں میں کون معاون ثابت ہو سکتا ہے اور ووٹ مانگنے والا ہماری ذات برادری کا ہے بھی یا نہیں۔ جب انتخاب کا یہ معیار ہوگا تو پھر ایسے لوگ ہی سامنے آئیں گے جو سات عشروں سے ہم پر مسلط ہیں۔ جب ہماری عبادت گاہیں فرقہ واریت کی آماجگاہوں میں ڈھل جائیں گی تو پھر ہمیں تازہ خون کی بُو ہی مرغوب ہو گی۔
ایسے سانحات جہاں روح تک کو زخمی کرنے کا سبب بنتے ہیں، وہیں لبرلز اور سیکولرز کی آنکھوں کی چمک اور قلم کی روانی دیدنی ہوتی ہے کیونکہ اُنہیں اپنے گمراہ کُن نظریات کے پرچار کے لیے ایک پسندیدہ موضوع ہاتھ آجاتا ہے اور وہ یہ ثابت کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں کہ یہ سب مذہب اور سیاست کی یکجائی کا شاخسانہ ہے۔ اِس لیے دین اور سیاست کو الگ کر دیا جائے۔ مثالیں وہ مذہبی انتہاپسندی کی ڈھونڈتے ہیں جبکہ فرقانِ حمید میں کہیں بھی لفظ ”مذہب“ استعمال نہیں ہوا بلکہ ”دین“ استعمال ہوا ہے کیونکہ مذہب جزو ہے اور دین کُل۔ مذہب صرف عبادات اور مذہبی رسومات تک محدود ہے جبکہ دین کا مطلب ہی طرزِ زندگی ہے جو ہماری معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے رَہنمائی کرتا ہے۔ سورۃ آل عمران آیت 85 میں ارشاد ہوا ”اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اُس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گااور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا“۔ اِسی سورۃ مبارکہ آیت 19 میں فرمایا گیا ”بیشک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے“۔
لبرل اور سیکولر اپنے نظریات کے پرچار کے لیے ہمیشہ مذہبی انتہا پسندی کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں۔ جس مذہبی انتہاپسندی کی وہ آڑ لیتے ہیں اُس کی دینِ مبیں میں مطلق کوئی گنجائش نہیں کیونکہ مذہبی انتہاپسندی جبراََ اپنے عقائد ونظریات نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ دینِ اسلام نام ہی امن وسلامتی اور اعتدال کا ہے۔ سورۃ الانبیاء آیت 107 کے مطابق حضورِ اکرمﷺ کو عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا اور غیرمسلموں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کی یوں تلقین کی گئی ”اگر آپ سخت مزاج ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے“ (آل عمران 159)۔رہا سوال مذہبی انتہا پسندی کا تو اس کے خاتمے کی ذمہ داری صرف صاحبانِ اقتدار پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری اُنہی کو سونپی ہے اور یہی اُن کی آزمائش بھی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں