259

دادبیداد ….قوت کا ضیا ع….۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اسلا م اباد کے ایک ہا ل میں بے روز گار نو جواں جمع تھے ان میں پر چیاں تقسیم کر کے کہا گیا کہ اپنی تعلیمی قابلیت کی آخری ڈگری کا نا م لکھو سب نے لکھا پر چیاں جمع کی گئیں جب حساب لگا یا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں 70فیصد ایم اے اور ایم ایس سی کر چکے تھے بقیہ میں سے 25فیصد بی اے، بی کام، ایم کام، ایم بی اے وغیرہ کی ڈگریوں والے تھے جبکہ 5فیصد ایم فل یا پی ایچ ڈی بھی تھے ہال کے پروگرام کا سہو لت کار جب روسٹرم پر آیا تو اُس نے اپنی بات ایک واقعے سے شروع کی واقعہ یون بیاں کیا کہ جا پان، چین اور جنو بی کوریا میں کوئی نو جوان بے روز گار نہیں ہوتا وجہ یہ ہے کہ وہاں پرائمیری سکول میں نو جوان کے روزگار کا فیصلہ ہوجا تا ہے وہاں گریجو ویشن اور ما سٹر کی ڈگری سے زیا دہ پرائمیری سر ٹیفیکیٹ کو اہمیت دی جا تی ہے صرف تین جملوں میں اتنی بڑی بات کہنے کے بعد سہو لت کار نے بے روز گار نوجوانوں سے خطاب کر تے ہوئے کہا تم میں کسی کو یو نیورسٹی اور کا لج جا نے کی ضرورت نہیں تھی اگر تم 10سال سکول میں گزار نے کے بعد کسی ایک شعبے میں کام کرنے پر لگ جا تے تو آج تم میں سے کوئی بھی بے روز گار نہ ہو تا اپنے پر مغز اور بصیرت افروز خطاب کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ملک کے تما م نوجوانوں کو یو نیورسٹی کا راستہ دکھا نا افرادی قوت کا ضیا ع ہے پرائمیری تعلیم لا زمی ہے سو فیصد کو ملنی چا ہئیے یو نیورسٹی کی تعلیم لا زمی نہیں اگر 20فیصد کو ملے توکا فی ہے با قی 80فیصد کے ساتھ ان کو بھی با عزت روز گار کے موا قع مل جائینگے ہال میں بیٹھے ہوئے سا معین میں سے صاحب ذوق حا ضرین کو ضمیر جعفری کا مشہور مصرعہ یا دآ یا ”ڈگری کو میرے لیجئے اچار ڈلئیے“ وطن عزیز پا کستان میں 73سالوں کے اندر 10تعلیمی پا لیسیاں بنا ئی گئیں. یکسان نصاب والی پا لیسی دسویں پا لیسی ہے ان پا لیسیوں نے قوم کو بے روزگار وں کی فوج ظرمو ج کا تحفہ دیا ہے ہم نے جا پا ن، چین اور جنو بی کوریا سے کچھ نہیں سیکھا اعلیٰ تعلیم اچھی چیز ہے اللہ تعا لیٰ کی نعمت ہے لیکن اس کو لا زم ٹھہر انا درست نہیں تعلیمی نفسیات میں بچوں اور بچیوں کے استعداد، ان کی دلچسپی اور ان کی مہا رتوں کو نا پنے کے بڑے اچھے اور واضح پیما نے مقرر ہیں آج کل ان پیما نوں کا جا ئزہ 3سال کے بچوں اور اس عمر کی بچیوں سے شروع کیا جا تا ہے ابتدائی بچپن کی ترقی (ای سی ڈی) اور مونٹی سوری کے نظام تعلیم میں 3سال سے لیکر 5سال تک کی بچیاں یا اس عمر کے بچے داخل ہو تے ہیں ان کے سامنے ایک طرف ریت، پتھر، مٹی کے ڈھیر رکھے جا تے ہیں دوسری طرف مختلف کا موں کے اوزار رکھے جا تے ہیں تیسری طرف کتاب، کا پی، پنسل، چارٹ اور ڈرائنگ والے رنگ رکھے جا تے ہیں بچیوں اور بچوں کو آزادی سے اپنا پسندیدہ کھیل کھیلنے کی کھلی اجا زت دی جا تی ہے اساتذہ ہر طا لب علم یا طا لبہ کی دلچسپی اور ذہنی استعداد کا مشا ہدہ کرتے ہیں یہ مشا ہدات 2سال بعد بچے یا بچی کے مستقبل کا تعین کرنے میں مدد دیتے ہیں پرائمیری تعلیم 7سال کا ہوتا ہے 7سال کے بعد سکول کا سر براہ جو سر ٹیفیکیٹ دیتا ہے اس میں طا لبہ یا طالب علم کی دلچسپی اور اس کے ذہنی استعداد کا جا ئزہ سب سے اہم ہو تا ہے اسی جا ئزے کی رو سے وہ جمنا سٹک، یا دیگر کھیلوں کے لئے منتخب ہوتا ہے اس کو فیکٹری یا زر عی فارم میں کا م دیا جا تا ہے جس میں وہ سیکھتا بھی ہے کما تا بھی ہے 80فیصد نو جواں 15سال سے کم عمر میں کام کرنا شروع کر تے ہیں 20فیصد گریجو یشن اور ما سٹر ز کی طرف جا تے ہیں ان میں سے کوئی بے روز گار نہیں ہو تا ان کی افرادی قوت ضا ئع نہیں ہوتی جبکہ ہماری افرادی قوت ضا ئع ہو جا تی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں