گنتی کے چند روز قبل جب پنجاب اسمبلی میں خواتین پر تشدد کے خلاف بل پاس ہوا اور اسکو قانون کی شکل دینے کی تیاریاں کی گئیں تو ہر وہ فرد جو اسکے خلاف تھا دوسرے لفظوں میں میں تو یوں کہوں گی خود اس فعل کا مرتکب تھا چیخ اٹھا۔ کوئی کہنے لگا کہ یہ قانون اسلام کے منافی ہے۔ تو کوئی کہنے لگا امریکہ اور یورپ سے کاپی کیا گیا قانون ہے۔کسی نے کہا زن مریدوں کا قانون ہے تو کسی نے کہا آئین کے متضاد ہے۔جتنے منہ اتنی باتیں. یہاں تک کہ ایک صاحب نے تو مردوں کے حق میں بل پیش کرانے کی بھی بات کر ڈالی۔ ابھی یہ زخم تازہ تھا۔ گھاؤ نہیں بھرے تھے لفظوں کی یہ سرد جنگی جاری تھی کہ ایک اور خبر نے جلتی پہ تیل کا کام کیا. لاس انجیلس میں شرمین عبید چنائے کی غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بنائی گئی دستاویزی فلم نے دنیا کا سب سے بڑا اکیڈمی ایوارڈ آسکر جیتا تو ابھی جو لوگ حقوق نسواں بل کے خلاف تھے ان تمام لوگوں کے صبر کے پیمانے لبریز ہوگئے۔ وہ آپے سے باہر ہوگئے۔ آگ بگولا ہوکر میدان میں ٹوٹ پڑے۔ایک جانب شرمین عبید چنائے کو مبارکباد دے کر ان پر پھول برسائے جارہے تھے تو دوسری جانب ان پر لفظوں کے توپ گولے۔ ہر کوئی اپنی ذہنیت کے حساب سے بن مانگے رائے دینے لگا۔کسی نے کہا یہ پاکستان کی بیٹی ہے ہی نہیں۔سارا سال برطانیہ میں مقیم یہ عورت پاکستان آکر ایک عورت کو پکڑ کے غیرت کے قتل کے نام پر فلم بنا لیتی ہے تو آسکر جیت جاتی ہے؟ یہ ہماری تذلیل کررہی ہے۔اصل آسکر تو تب ہوتا جب یہ ریمنڈ ڈیوس کے خلاف فلم بناتی اور ایوارڈ جیتتی. کچھ جل ککڑے تو اس قدر بھی جلے کہ اسے مسلمان ماننے سے بھی انکار کرنے لگے. یوں ایک ساتھ دو جنگیں شروع ہوگئیں. مجھے ان سب حضرات کی باتیں سن کر ایسے لگا شاید ہم عورتیں انسان نہیں. واقعی کسی نے سچ کہا یہ مردوں کا ہی معاشرہ ہے. میرے محترم بھائی اور نوجوان جو حقوق نسواں بل کو اسلام کے خلاف قرار دے رہے ہیں ذرا یہ تو بتائیں کیا اسلام میں عورت پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہے؟ کیا اسلام کہتا ہے گھر میں مار پیٹ کرو؟ آدھی رات کو ایک عورت جس کا نام ہی عزت ہے اسے گھر سے باہر نکال دو؟ وہ جو تمہارے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ کے آئی اسی سے کہو تمہارا اس گھراور میری اولاد سے کوئی تعلق نہیں تو وہ سب ٹھیک؟ ہیں نا؟ اس میں تو کسی کو بھی کوئی قباحت نہیں. یہ جو ابھی بول رہے ہیں تب ان میں سے نہ کوئی مولانا کہے گا ایسا کیوں کیا؟ یا تمہاری غلطی ہے.نہ کوئی اسے تحفظ دے گا. جب ایک کام مرد کرے تو وہ اسکی مردانگی. عورت آواز بھی اٹھائے تو تمہاری اونچی ناک کٹ جاتی ہے. جب تم عورت پر ظلم کرتے وقت یہ تک بھول جاتے ہو کہ اسلام میں اسکی اجازت نہیں. تب تم انسان کم شیطان زیادہ بن جاتے ہو. عورت اب تمہارے اسلام کے اس منافی فعل پہ اگر کوئی تحفظ چاہے تو مسلہ کیوں؟ تب ہی کیوں مذہب یاد آیا؟ جب اسلام سے ہٹ کے کچھ کرنا ہی ہے تو قانون بھی تو ویسا ہوگا. چلیں ہم مان لیں امریکہ اور یورپ سے کاپی کیا گیا قانون ہے. ذرا اسکے خلاف بولنے والے بھی یہ تسلیم کرنے میں تھوڑی زحمت کریں گے عورت پر تشدد والا کام بھی مغربی تقلید ہے. جب تمہیں شرم نہیں آتی عورت بھلا کب تک شرم کرے. اور جو کہہ رہے ہیں اندرونی بات کو پوری دنیا میں پھیلایا. نام بدنام کیا گھر کا مسلہ تھا یہ تو.مرد کے خون میں غیرت ہے عورت اگر ایسانہ کرے تو کوئی مرد کیوں ناحق قتل