321

بلدیاتی آفٹر شاک…………. تحریر۔ شہزادہ مبشرالمک

وزیر اعظم جناب عمران خان کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ پرویز مشرف کے بعد ایک منتخب وزیراعظم نے پارلیمانی اور سیاسی رویت کو پس پشت ڈال کر اپنے انتخابی وعدے کو نبھاتے ہوے ۔۔۔ بلدیاتی انتخابات کرواءے اگرجہ یار لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ۔۔۔۔ سپریم کورٹ ۔۔۔ کے سپریم ڈنڈے کے طفیل ممکن ہوا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کے پی بلدیاتی دھنگل نے خان صاحب اور اس کے خیالی دنیا کے وزرا کو بھی غفلت کی نیند سے جگا دیا ہے۔مجھ جیسے کم ظرف لکھاری مدتوں سے خان صاحب کو یہی بات سمجھانے کی ناکام کوشیش میں لگے ہوے تھے کہ عوام کے ساتھ جوڑے رہیں یہ عالمی سیاست یہ بلند وبانگ دعوے یہ غیبی مخلوقات پہ بھروسہ خزان کے پتوں کی طرح ہوا کرتے ہیں جو جھڑ جانے پہ آجاءیں تو ہوا کا ایک ہی جھونکا انہیں کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔
حالیہ انتخابات کے نتایج ورکرز ،وزرا،مشیران، جو خان صاحب کے آگے دوزانو ہوکے اخلاقیات کا درس جو لیتے رہے اور دوسروں تک راءی کو پہاڑ بناکر شاہ سے شاباش پاتے رہے یہ اسی سیاسی گند کا پیش خیمہ ہے ۔یہ بات ہمارے نظر نہ آنے والی مخلوقات کے لیے بھی نوشتہ دیوار ہے کہ ۔۔۔ جمہور کو جمہور سمجھ کر ڈیل کیا جاءے بدخشان سے لاءے گیے ۔۔۔ بیھڑ اور دنبے نہیں۔کءی سالوں کی جنگ جس کے سبب لاکھوں لوگ ایک اذیت ناک حالات سے دو چار ہوے ان علاقوں میں حکومت کے شروع کیے گیے اچھے اقدامات بھی عوام کے دلوں میں وہ جگہ نہ بناسکے جو اس کاحق بنتا تھا۔کرونا کی سونامی نے بھی حکومت کا منہ کالا کرنے میں اہم رول ادا کیا اور عالمی اقتصادی مشکلات کی حقیقت سے بھی نااہل مشروں اور وزرا نے لوگوں کو قایل کرنے میں روایتی نالایقی کا بار بار مظاہرہ کیے رکھے۔اءی ایم آف کے اشاروں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا بھی حکومت کی مقبولیت کے گراف کو ۔۔ روشنی کی رفتار سے تیز نیچے لانے میں مدد دی مگر وزیراعظم سمیت ۔۔ خیالی اور خلاءی بھی تنزلی کے اس سفر سے بے خبر ہی رہے۔تمام تر خرابیوں کا زمہ دار نواز شریف اور زرداری کو ٹھرانے کی ۔۔۔ غزل سرائی بھی مسلسل سنانے کے بعد عوام کی کانوں کو بھلا لگنے کی بجاءے بوریت اور بے زاری کاسبب بنا رہا۔۔ نیب کی۔۔۔ فرنڈلی فاءیر۔۔۔ اور مخالفین کے لیے حقیقی احتساب کی جگہ ۔۔۔سیاسی انتقام۔۔۔ کالیبل چسپاں کیے رکھا ۔عدلتوں میں کیسوں کے التواء چکر بھی احتساب سے زیادہ سیاست کی سلامی کا ذریعہ بنا رہا جس سے لوگ اور بھی متنفر ہوءے۔
افغانستان میں طالبان کی عالمی پابندیوں،امریکہ بہادر کے ڈاگے اور غنڈہ گردہ کے باوجود بے سروسمانی کے عالم میں ایک چالیس سالہ جنگ زدہ ملک میں امن کا قیام اور تمام عالم کفر اور اللہ کے دیے ہوے نظام اسلام سے
متنفر عالم اسلام کے بزدل حکمرانوں کے مخالفت کے باوجود ۔۔۔شریعت محمدی۔۔۔ کانفاذ بھی پاکستان میں بلعموم بلوچستان اور کے پی میں بلخصوص اسلامی بیداری کا دور دوبارہ لوٹ لایا ہے۔جو آنے والے دنوں میں ایک مقبول مطالبہ بن کے گھر گھر کی آواز بن سکتی ہے۔خان صاحب کی حکومت میں مدینے کی ریاست کی باتیں تو زوروں سے ہوتی ہیں مگر رفتار ۔۔۔ کھچوے۔۔ سے بھی سست ہونے کی وجہ سے اسلام پسند عناصر جو خان صاحب کو امید کا آخری سہارہ سمجھ رہے تھے وہ بھی مایوسیوں کے اتھاگہرایوں میں دبتے جارہے ہیں۔اور خان صاحب کے دن ختم ہوتے جارہے ہیں اور کوءی نتیجہ سامنے آنے کا نام نہیں لے رہا۔اب مولانا آرہا ہے کے نعرے کو تقویت ملتی جارہی ہے اور آنے والا کل اگر مولانا ثابت قدم رہے تو اللہ کی مدد نصرت بھی شامل حال ہوسکتی ہے اور افغانستان میں طالبان کی کامیابی ہمارے عالمی حالات کو سدھارنے کے لیے پالیسی سازوں اور خلاءیوں کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ حضرت مولانا کو سینے سے لگا ہی دیں حالیہ کامیابی میں بھی مجھے ۔۔۔ قربتیں نظر آرہی ہیں جو مستقبل میں ۔۔۔ تبدیلی سرکار کے لیے وقت سے پہلے ہی تبدیلی کے۔۔۔۔ آفٹر شاک۔۔۔ ثابت ہوسکتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں