207

اپیل براے گاینی وارڈ……. تحریر۔۔۔ شہزادہ مبشراالملک

شب ہندوکش اسٹاپ سے واپسی پر ایک عزیز کے ہاں ۔۔۔۔ طوفان الملک۔۔۔ جو دوہزار پندرہ کے سیلابوں۔ کے دنوں میں پیدا ہوے تھے اور ایک صبرازما سفر کے بعد مبارک باد کے لیے ہم لوگ پہنچے تھے اور اس بچے کا نام گرامی جناب ڈاکٹر شیدا صاحب نے طوفاں الملک رکھا تھا اب اسکی چھوٹی بہین ۔۔۔ سونامی والے سرکار کی حکومت۔ میں تشریف لاچکی ہیں اس لیے۔۔۔۔ سونامی الملک کی مبارک باد کے لیے پہنچے۔حالات کا جایزہ لینے کے لیے ۔۔۔۔ بیگوم۔۔۔ کو گاڑی میں چھوڑ کے بیٹے معاذ کو ساتھ لے کر رات نو بجے وراڈ پہنچا تو ایسا لگا۔ کہ میں ہسپتال میں۔ نہیں ۔۔۔۔ پیرس۔۔۔ کی گلیوں میں گھوم رہا ہوں۔۔۔ خوشبوات کی سونامی ہے جو ۔۔۔۔ چاروں شانے چت۔۔۔ کررہی ہے۔۔۔۔ ناک کی دنیا۔۔۔ میں بھی۔۔۔ طوفان ۔۔۔ انگڑاءی لینے لگے۔۔۔۔ ہا کھشو۔۔۔ ڈیشوں۔۔۔۔ کے نعرے لگاتے ہوے گلی میں۔۔۔۔ سونامی الملک کے فادر نامدار کو ڈھونڈتے رہے اخر ایک صاحب نے اندر وارڈ میں دیکھنے کامشورہ دیا۔تو دل پر پھتر رکھتے ہوے اندر داخل ہوے تو وہی سال۔ دوسال۔۔ تیں سال پرانے والے مناظر دیکھنے کو ملے ۔۔۔۔ خواتیں سے زیادہ مرد حضرات ۔۔۔ بیڈوں۔۔۔ میں تین تیں ہوکے بھیٹےہوے تھے میں سمجھ نہیں سکا کہ یہاں کیا ہورہا ہے ایک نرس کو قریب کیا۔ اور حیرت سے سوال کیا ۔۔۔ کیا اس وارڈ میں مرد بچے جن رہے ہیں۔۔۔۔ اس بے چارے نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور ۔۔۔۔ حضرات۔۔۔ کو صلواتیں سناءی۔۔۔ شرمندگی سے میں خود کو ایک ۔۔۔ بھالو۔۔۔ محسوس کرنے لگا بنچوں اور بیڈوں میں مجھے مردوں کے دم۔ بڑے بڑے کان ۔سینگھ۔ نظر انے لگے ایسا لگا میں گاینی وارڈ میں نہیں۔۔۔۔ بندروں۔ بھالوں۔لنگوروں۔کے پنجروں میں گھس ایا ہوں جہاں قوم کی مجبود بہنن بہیٹیاں ڈری سہمی اہ وبکا کر رہی ہیں مگر سنگ دل مرد بہڑیا بن کے خواتیں کی مشکلات سے بے خبر ۔۔۔۔ لڈو کھانے اور مبارکباد اور موبایلی پیغامات دینے میں مگن نظر ایے۔۔۔۔ میں زندگی حقیقتا ۔۔۔۔ رینی دون زوردو غون۔۔۔ ہوکے واپس باہر یہ اشعار الاپتے ہوے شرمندگی اور غصے سے نکلا۔۔

بے پردہ نظر اءیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گھڑ گیا

پوچھا جو میں نے اپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا۔

میرے دماغ میں چنگاریاں بھر چکییں تھیں اقبال کے شکوے کے اشعار ۔۔۔ ٹاخ ٹاخ کرکے نکل رہے تھے میں دوڑتا ہوا سیڑیوں سے نیچے افیس والے چھت پہ پہنچا اور بے قبلہ ہی سجدہ شکر بجا لانے گر پڑا کہ۔۔۔۔ اللہ تو نے مجھے بوڑھا بنا کے کتنا احسان کیا ہے اور اگر اس اسپتال میں مجھے ۔۔۔ بیگوم۔۔۔ کو لے کر انا پڑتا تو میں کیا کرتا۔۔۔۔ ابھی سجدہ شکر کی لذت پوری نہ ہوی تھی کہ ۔۔۔۔ کیمکل جن میں ڈیٹول۔اسپرینول۔۔۔ بروفینول۔۔۔ گاٹرول۔۔۔ پھوفینول۔واہےنول۔۔ گیسوں کا ایک ۔۔۔۔ بگولہ۔۔۔ ناک سے ٹکرا گیا کہ سردی کے موسم میں بھی جوالاءی کے دنوں کومات دے دیا۔۔۔ مدہوشی کے سجدے کو چھت میں چھوڑ کر گاڑی کی طرف بھاگا اور بھاگم بھاگ گھر ہہنچ کر ۔۔۔۔ زندگی میں شاید پہلی بار ۔۔۔۔ بے گوم۔۔۔ کے ہاتھ چومے کہ تم نے میری لاج رکھ لی اگر اس وارڈ میں
میرے لیے بچہہ جنتے تو وہ ۔۔۔۔ امراض الملک سے کم نہ ہوتا۔

شب بھر وارڈ کی حالت۔۔۔۔مردوں کی سینہ زوری۔خواتیں کی تکالیف ۔ڈاکٹروں اور اسٹاف کے لیے رش کے سبب مشکلات کی سوچ نے دو بجا دیے۔ معلوم نہیں کب نیند نے مجھے اغوش میں جگھڑ لیا۔۔۔
ناگہاں۔۔۔۔میں نے خود کو اسی سجدہ شکر والے چھت پہ ہاتھ پاوں مارتے اور بچاو بچاو پکارتے ہوے بایا۔۔۔ میرے چاروں طرف ڈاکٹر صاحباں کھڑے تھے جناب رکن الدیں صاحب ایک بوری میں گولیان لیے میرے منہ میں ٹھوستہے جارہےتھے۔۔۔۔ ڈاکڑ فاروق میری ناک اور کان کاٹنے کھڑے تھے ایک اور۔ دوست ڈاکٹر ارشاد ۔۔۔ امبور لیے میرے دانت کھنچ رہے تھے۔۔۔ اچانک۔ میرے ہردی لذیذ ڈاکٹر انور دوسو سی سی سیرنج ہاتھ میں لیے میری جانب بڑھے تو میں ۔۔۔ چیخ مارتا ہوا۔۔۔ بھاگا اور چھت سے چھلانگ لگادی۔ ۔۔۔۔ پسینے میں شرابور میں اپنے ہی کمرے میں بیڈ سے نیچے گر چکا تھا اور بوتل سے ٹکرانے کے سبب ایک عدد۔۔۔ جزوی پڑوچ۔۔۔ پیشانی کے کونے میں وارد ہوچکا تھا۔۔۔۔ میں نے اس زخم کو۔۔۔۔۔ ۔ بھیانک خواب کے مقابلے میں۔۔۔۔ تروپ چوریرو۔۔۔ سمجھا۔۔۔۔ اذان سحر جاری تھی ۔۔۔اسپتال والا ادھورا سجدہ۔ یہ کہتے ہوے نہایت ہی خوشعو و خوضو۔۔۔ میں ادا کی۔

او ایک سجدہ کریں عالم
مد ہوشہی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں۔
قارءیں دلنشین۔۔۔۔ یہ سب باتیں دو تیں داتیں نکال کر ہسنے کی باتیں نہیں ہیں بکہ سوچنے اور رونے کی ہیں۔جو قوم اپنی روایات ۔تہذیب اور اقدار کھو دے وہ پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتی۔۔۔۔ یہ
میں بار بار اس ۔۔۔ گاینی وارڈ پر لکھتا ایا ہوں مگر سب بے سود۔۔۔۔۔ اگر ہسپتال کے پاس فنڈ نہیں ۔۔۔ تو میں ایم این اے۔ صاحب جناب ایم پی اے۔ ڈی سی صاحب۔ایم ا یس صاحب۔ تجار چترال این جی اوز کے سربراہاں ۔۔۔ لکھ پتیان چترال اور ملک سے باہر رہنے والے چترالی بھایوں سے جھولی پھلاکے اپیل کرتا ہوں کہ دس پندرہ لاکھ دوپے میں اگر یہ وارڈ سو بستروں کا ہے تو اگر پچاس کا ہے تو نصف رقم سے چھ ضرب چھ ضرب اٹھ کے کیبن نما کمرے اینٹ یا گیرل اور پٹی سے چند ہی دنوں میں بنایے جاسکتے ہیں جو خوبصورت بھی لگیں گے جہاں خواتیں اور ان کے مطالقیں سکون اور پردے سے مشکل وقت گزار سکتے ہیں ۔۔۔ بصورت دیگر ۔۔۔۔ چترال میں بچے پیدا کرنے پر پابندی۔۔۔ یا مردوں کے وارڈ میں داخلے پر پابندی لگا دی جاءے جو فوجی اور پراییوٹ ہسپتالوں میں ہو رہا ہے۔ قوم جب تک ز
مہ دذری اور شعور کا ثبوت نہیں دی گی یہ مسایل ہماری شناخت کو مٹاتے کی رہیں گے اور ہم کہیں کے بھی نہیں رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں