276

کہاں سے اءے صدا لا الہ الااللہ……. تحریر۔۔۔ شہزادہ مبشرالملک۔

ملک خداداد۔۔ جسے وجود میں اءے ستر سال سے زاید کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن۔ یہ کس مقصد ، کس نظریے اور کونسے کلمے کی بنیاد پر لاکھوں نفوس کی جانی قربانی ۔ہزاروں بہنوں بیٹیوں کی عزمت و عفت کی قربانی لاکھوں نفوس کی گمشدگی کڑورہاں روپے املاک کے نقصانات کیا صرف اس لیے تھے کہ انگریز کی علامی سے نکل کر ۔۔۔ انگریز اور ہندو جیسے ہی طرز زندگی روا رکھی جاءے۔یہ روز روز ہمارے وزرا کے ۔۔۔ دل خراش۔۔۔ بیانات کہ یہ ملک اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے نہیں بنا تھا بلکہ ایک۔۔۔ لبرل اور سکولر۔۔۔ اسٹیٹ کے لیے وجود میں ایا تھا۔۔۔ ایک جانب وزیراعظم صاحب ملاقتوں میں ۔ہر تقریر میں ۔۔۔مدینے کی ریاست کی بات کرتے نہیں تھکتے دوسری جانب بعض اسلام بیزار وزرا کے یہ بیانات۔۔۔ تحریک پاکستان۔۔۔ قراداد مقاصد۔۔۔ فلسفہ اقبال۔۔۔ قاءید کے فرمودات و محنت شاقہ اور اءیین پاکستان کے منہ پر ۔۔۔ زور دار طمانجہ ۔۔۔ ہے مگر کسی شخصیت۔۔۔ ادارے اور پارٹیوں نے اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ لگتا ہے جس طرح۔۔۔ عرب حکمرانوں کو اسلام سے الرجی کا دورا پڑا ہے اسی طرح یہاں بھی اسلام سے براءے نام وابستگی کو بھی روشن خیال مٹھی بھر مگر طاقتور عناصر۔۔۔ قصہ ماضی۔۔۔ بنانے کا عہد کرچکے ہیں۔
میں نے حالیہ دنوں میں جو تصوری دروزہ کھولا ہے یہ ان ہزاروں دروازوں میں سے صرف ایک اسلامی پارٹی کی کاوشوں کی ایک جھلک ہے کہ مشرقی پاکستان سے لے کر روس کے خلاف افعان جنگ پھر کشمیر اور پاکستان کے اندر اسلامی نظام کے مطالبے کی جدوجہد میں۔۔۔ کن کن پارٹیوں اور امروں کے ۔۔۔جھوٹے اسلامی وعدوں پر انحصار کرتے ہوے ہمیشہ دھوکا کا شکار رہے۔ اگر جماعت اسلامی اپنے ۔۔۔۔۔۔۔داعیانہ ڈگر۔۔۔۔ سے نکل کر۔۔۔۔ سیاست کی پر خار وادی۔۔۔۔ میں قدم نہ رکھتا تو اج حالات بہت مخثلف ہوتے۔۔۔ انتخابی سیاست کے فیصلے سے ۔۔۔ شروع میں ہی بہت اعلی دماع شخصیات اپنا راستہ الگ کرکے ۔۔۔ حضرت مودودی کو چھوڑ کر چل دیے۔۔۔
یہ اقتدار تک پونچھنے کی دوڑ نے جماعت کو اوپر لے جانے کی بجاءے تنزل کی راہ بڑی تیزی سے دیکھا دی۔ ملک و ملت اور عالمی دنیا کو ایک ۔۔۔ معتدل۔۔۔ طرز حکمرانی کا خواب جو جضرت مودودی اور قاید کا خواب تھا وہ ۔۔۔ خواب۔۔۔ بن کے رہ گیا ۔۔۔۔
اب بھی ترکی اور ملیشیاء کے مہاتر محمد کے طرز پر جماعت اور دیگر اسلام پسند پارٹیوں کو اپنی ساری توجہ ۔۔۔۔ تعلیمی اداروں۔۔۔ کی جانب مرکوز کرنی چاہیے ۔اور کجھ حد تک ان پہ ان کو دست رست حاصل بھی ہے مگر اس کے دایرہ کار کو پاکستان کے شہری علاقوں سے باہر نکال کر دور دیہات تک پھلانا وقت کا تقاضا ہے ۔۔۔ اس کے لیے جماعت کو ایک مربوط ایجوکیشن انقلابی پالیسی بنانا چاہیے۔۔۔جہان طالبہ وطالبات اور ٹیچرز کےلیے ۔۔۔ تجریکی اور اخلاقی تربیت سرفہرست ہو۔اور اسٹوڈنٹ کی کردار سازی کے ساتھ انہیں کسی بھی شعبہ ہاے زندگی میں شمولیت اور کسی بھی سیاسی پارٹی اور ادارے کے انتخاب میں ازادی ہو تاکہ اپ کا نمایدہ کہیں بھی موجود ہو اس کے پیش نظر ۔۔۔۔ اس بد قسمت ملک میں اسلامی نظام کاقیام انگڑاءی لیتا رہے اور اس نظام کے لیے راہ ہموار کرنے میں وہ ہجکچاھٹ اور تذبذب کا شکار نہ ہو یوں بیس پچیس سالوں بعد تمام شعںہ زندگی میں ۔۔۔ اسلام کاسور ج۔۔۔۔ بیغیر خون خرابے کے پر امن طریقے سے ۔۔۔ جلوہ گر۔۔۔ ہوسکتا ہے۔
اجکل ۔۔۔۔ نسل نو کی بربادی بزریعہ نیٹ۔و موبایل ۔۔۔ جنگل کی اگ کی طرج لگی اور پھلی ہوی ہے ان حالات میں روایتی سیاست کی رفتار سے نکل کر ۔۔۔ روشنی کی رفتار سے نسل نو کی اخلاقی تربیت کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔ کہاں سے اءے صدا لا الہ الااللہ کی صدا دم توڑتی رے گی اور نسل نو کے ۔۔۔ گلے۔۔۔ کبھی امریکہ کی کال کبھی اءی ایم ایف کے پیکچ کبھی ایف اے ٹی ایف کی خوف کبھی عرب و چین کی امداد پر ۔۔۔ گھونڈنے۔۔۔ کے مناظر ہم دیکھتے رہیں گے۔
پارلیمنی محاذ میں بھی اپنا ہونا اور دیگر پارٹیوں میں موجود صالح عناصر سے روبط اور انہیں بھی ایک ذمہ داد مسلمان نماندے کے سیاسی اور مذہبی فرایض کے۔۔۔ ادایگی۔۔۔ کے لیے تیار کرنے کی کوشیش بھی سود مند ہوسکتی ہیں تاکہ کوءی فواد۔کوءی ورڈا کوءی مزاری۔۔۔۔ اسلامی حدود۔۔۔ کا مذاق نہ اڑا سکے اور چوری چھپے اسلامی قوانین کو۔۔۔ روشن خیالی ۔۔۔کی دوڑ میں ۔۔۔۔روند۔۔۔ نہ سکے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں