240

جنرل وارڈ کے ایک مریض کی گذارشات۔۔۔محکم الدین ایونی

چترال کا ڈی ایچ کیو ہسپتال مادر ہسپتال کا درجہ رکھتی ہے ۔ اپر اور لوئر چترال کی 447800آبادی کا زیادہ تر انحصار اس ہسپتال پر ہے ۔ جس کی وجہ سے یہاں پر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں پر سب سے بڑا بوجھ ہے ۔ کیونکہ سپشلسٹ سمیت دیگر ڈاکٹروں کی دو درجن سے زیادہ آسامیان اب بھی خالی ہیں ۔ ایسے میں جوسپشلسٹس و ڈاکٹرز چترال بھر کا بوجھ برداشت کر کے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ یقینا لائق تحسین و آفرین ہیں ۔ ہو سکتاہے بہت سارے قارئین میرے اس بات سے اتفاق نہ کریں ۔ لیکن مجھے سات روز تک ہسپتال میں اپنے داخلے کے دوران نہایت باریک بینی سےجائزہ لینے کا موقع ملا ۔ اس دوران حکومت اور ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کئی اچھے اقدامات کا مشاہدہ اور ناقص کارکردگی سے واسطہ پڑا ۔ جنہیں میں کسی کی بے جاخوشنودی حاصل کرنے یا بلا وجہ کمزوریاں تھوپنے کی غرض سے ضبط تحریر میں نہیں لارہا بلکہ میرا بنیادی مقصد اصلاح احوال ہے ۔

ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں میرے داخلے کی کہانی 4جنوری سے شروع ہوتی ہے  جب مجھے شدید سانس کی تکلیف بخار اور کمزوری کی شکایت پیدا ہوئی ۔ بدقسمتی سے اس روز فائر ووڈ الاونس کے سلسلے میں ہسپتال کے لوئر سٹاف احتجاج پر تھے  اور او پی ڈی بند تھا ۔تاہم صحت کارڈ کا آفس کھلا تھا ۔ ڈاکٹر نے ایمرجنسی میں چٹ لینے کی رہنمائی کی اور مختلف ٹسٹ کے ریزلٹ دیکھنے کے بعد فوری داخلہ کا مشورہ دیا ۔ جس کے بعد صحت کارڈ کا مرحلہ طے ہوا اور جب ادویات متعلقہ سٹور سے لے کر وارڈ میں داخلے کیلئے پہنچا تو کوئی بیڈ خالی نہیں تھا ۔ داخلہ رجسٹر کو اپڈیٹ کرنے والے ایک اسٹاف نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے یہ ادویات لے کر گھر جاکر استعمال کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ بات میرے بھی دل کو لگی  کہ جب ہسپتال میں بیڈ خالی نہیں ہے تو گھر میں علاج کے علاوہ میرے پاس اور کوئی اپشن نہیں ہے ۔اس لئے مجھے گھر ہی جانا چاہئیے دل میں اس فیصلے کے بعد مجھے صحت کارڈ اہلکار کے پاس دوبارہ اس غرض سے جانا پڑا تاکہ دو دنوں کیلئے مجھے مزید ادویات مل جائیں ۔ ۔ صحت کارڈ ڈیل کرنے والے نوجوان نے مجھے سمجھاتےہوئے کہا۔ کہ ایک تو ہم صرف داخل مریض کیلئے ڈاکٹر کے لکھے ہوئے ایک دن کی دوائی کے نسخے پر مہر لگاتےہیں ۔ دوسرا صحت کارڈ کے حامل مریض کو ہسپتال کے بیڈ پر موجود ہوئے بغیر علاج کی سہولت نہیں دی جاتی اس لئےآپ کاہسپتال میں ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ ہو سکتاہے  آپ کو مزید چیک کرنے اور ادویات کی ضرورت ہو ۔پھر انہوں نے انکشاف کیا  کہ ہسپتال میں صحت کارڈ پر داخل مریضوں کی فزیکل بیڈ چیکنگ نہیں ہو رہی ۔ جس کی وجہ سے بعض صحت یاب شدہ مریض مختلف طریقوں سے ڈاکٹروں سے رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ضرورت مند مریض بیڈ سے محروم رہتے ہیں ۔

میرے بیڈ کا مسئلہ میرے ایک محترم ڈاکٹر کے تعاون سے حل ہوا اور میں ڈاکٹروں کے بھر پور توجہ کی بدولت سات دن ان کےزیر علاج رہنے کے بعد 10 جنوری کو ہسپتال سے فارغ ہوا ۔ ہسپتال میں میں نےچند چیزوں کا مشاہدہ کیا ۔ جن کا میں اس تحریر میں بطور خاص ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں  اور یہ امید رکھتا ہوں  کہ ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال شہزادہ حیدر الملک ایک دیانتدار اور فرض شناس آفیسر ہیں ۔ جن کا ڈی ایچ کیو ہسپتال کی سیٹ سنبھالے تقریبا چند ہی دن ہوئے ہیں ۔ میری گزارشات پر ضرور توجہہ دیں گے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں گے  تاکہ حکومت مریضوں کو جو سہولت دینا چاہتی ہے اس کےخاطر خواہ نتائج برآمد ہوں ۔

ہسپتال میں ایک رات میرے کان میں شدید درد اٹھی مجھ سے رہا نہیں جا سکا ۔ میں اٹھا نرسز اور پیرامیڈیکس کاونٹر کے اندر جھانکا تو دو بینچوں پر دو افراد سو رہے تھے  میں نے ایک کا اور دوسرے کا چادر کھسکایا اور پوچھا کہ تم سٹاف ہو ۔ دونوں نےکہا ہم اپنے مریضوں کے ساتھ ہیں  میں اس حالت میں کہ میرےکان کے اوپر چھرا گھونپا جارہا تھا ۔ مسیحا کی تلاش میں وارڈ سے باہر نکلا اور ڈیوٹی روم پہنچا ۔تو وہاں پر ایک نوجوان خواب خرگوش میں مصروف تھا ۔ میں نے اسے جگانے کی کوشش کی اور بمشکل اس میں کامیاب ہوا میرا خیال تھاکہ یہ میرا مسئلہ حل کر جائے گا لیکن اس نے موبائل اٹھاکر ایک دوسرے بندے کو کال کی۔ وہ آیا تو وہ بھی میرے کام کانہیں تھا یہ تیسرے شخص کےپیچھے چلا گیا تو مجھے وہ مشہور ضرب المثل یاد آیا ۔ تریاق از عراق آوردہ شود مرگزیدہ مردہ شود ۔ تقریبا بیس منٹ کے انتظار کے بعد اصل بندہ سامنے آیا تو چہرہ کافی اترا ہوا تھا میں نے اپنی روداد سنائی ۔ تو انہوں نے انجکشن لکھ دی ۔ میں نے پیسے دیے اور وہ نوجوان میڈیکل سٹور سے لے آیا ۔ یوں مجھے انجکشن لگنے میں پونے گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا ۔ اس طویل تجربے کے بعد میری ایم ایس صاحب سے گذارش ہے  کہ وہ رات کے وقت وارڈ کے اندر نرسز کاونٹر کو الرٹ رکھنے کی ہداہت فرمائیں ۔ پیرامیڈیکس اور نرسز کی تعداد کی تو کوئی حد نہیں لیکن ایمرجنسی میں وارڈ کے اندر کسی پیرامیڈکس کی تلاش جوئے شیرلانے کے مترادف ہے ۔ ان ا سٹاف کا یونیفارم میں ہونا بھی از بس ضروری ہے تاکہ اسٹاف اورعام لوگوں میں فرق واضح ہو ۔

ہسپتال کے واش رومزکی حالت انتہائی طور پر مخدوش ہیں ۔ کوئی ٹونٹی پورے واش روم میں موجودنہیں ۔ بالٹی لوٹا کی سہولت موجودہے۔ اور نہ استعمال کیلئے پانی دستیاب ہے ۔ چوبیس گھنٹے میں صرف ایک مرتبہ صفائی کی جاتی ہے ۔ ذہہن پر بڑا بوجھ برداشت کرتے ہوئے مریض یہ واش رومز استعمال کرنے پر مجبورہیں۔ اس کیلئے مکمل انتظام کیا جانا چاہئیے ۔جنرل وارڈ کے علاوہ فیمل وارڈ وغیرہ تمام واش رومز کی حالت ایک جیسی ہے ۔ یہ ایسی چیزیں ہیں۔ جنہیں بار بار ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے مریضوں کو مورد الزام ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ قرار دینا کسی صورت درست نہیں۔ ہسپتال میں میرے داخلے کے موقع پر آپ اپنی پہلی وزٹ پر وارڈ میں تو آئے تھے ۔ لیکن اسٹاف نے آپ کو ایسا الجھایا کہ پھر واش رومز وغیرہ کی چیکنک کا آپ کو موقع ہی نہیں دیا گیا ۔

ہسپتال میں معذور مریضوں کیلئے واش رومز کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے  تاکہ ٹانگوں سے معذور یا سانس کی تکلیف میں مبتلا مریضوں کو واش روم تک سہولت سے پہنچایا جا سکے ۔ جنرل وارڈ میں وہیل چیئر پر مریض کو واش رومز کے احاطے تک تو آسانی سے پہنچایا جاتا ہے ۔ لیکن وہاں سے واش روم میں داخل ہونے کےلئے چھ سیڑھیاں چڑھنے پڑتے ہیں اس وقت بھاری بھر کم جسامت والے اور سانس کی تکلیف سے دوچار مریضوں اور ان کے اٹنڈنٹ پر جو گزرتی ہے وہ الگ داستان ہے ۔ اسی لئے بعض مریض اس عذاب سے بچنے کیلئے کھانا پینا تک چھوڑدیتےہیں ۔ ان معذور افراد کیلئے جدید سہولیات کے حامل واش روم کی تعمیر انتہائی ضروری ہے  تاکہ وہیل چیئر پر ہی مریض واش روم میں داخل ہو سکے ۔ اسے کسی بڑے سہارے کی ضرورت نہ پڑے ۔اس قسم کے واش رومز کی تعمیر کیلئے حکومت کے علاوہ مختلف این جی اوز سے بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے ۔

ڈی ایچ کیو ہسپتال کےجنرل وارڈ کی دیواریں انتہائی طور پر خراب ہو چکی ہیں ۔ انہیں دیکھ کر صدیوں پرانی عمارت کی باقیات لگ رہی ہیں ۔ اس لئے ان دیواروں کو پینٹ کرکے یا جدید پلاسٹک شیٹ دیواروں پر لگا کر انہیں خوشنما بنایا جا سکتا ہے ۔ اور دیواروں کو سیم سے بھی بچایا جا سکتا ہے تاکہ ہسپتال کی شان برقرار رہے ۔

حکومت نے صحت کارڈ کےنام پر مریضوں کو صحت کی سہولتیں مفت فراہم کرنے کیلئے محتحسن نظام متعارف کیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 2300 روپے فی مریض پر خرچ کی جاتی ہے۔ لیکن جن مریضوں کی ادویات کی قیمت 2300 سے زیادہ ہوتی ہے ان سے اضافی قیمت اسی وقت متعلقہ میڈیکل سٹورکیش وصول کرتی ہے۔ جبکہ دوسرے دن اگر ڈاکٹر کے لکھے ادویات کی قیمت سرکار کے متعین کردہ حساب سے کم ہوتی ہے ۔ تو اس دن کی کمی کو گذشتہ روز کی زیادتی سے ایڈجسٹ نہیں کیا جاتا۔ اس سے ایک طرف سرکارکافنڈ خرچ ہوتا ہے اور دو سری طرف غریب مریض بھی اپنی جیب سے خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اگر یہ ممکن ہو کہ روزانہ کے فکس سرکاری ادویاتی اخراجات کو مریض کے داخل دنوں کے حساب کے مطابق جمع کئے جائیں اس کے بعد اگر مریض پر اضافی رقم چڑھے تو وہ آدا کرے گا ۔ اس سلسلے میں مقامی سطح پر اگر ایڈجسمنٹ کی کوئی صورت ہو سکتی ہے تو صحت کارڈ کے فوائد سے مریض مکمل طور پر استفادہ حاصل کرسکیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں