512

دروش کے 450 زلزلہ متاثرہ خاندان لانگ مارچ کرتے ہوئے افغانستان کی طرف اپنے احتجاجی سفر کا آغاز ، تو چترال سکاؤٹس نے انہیں روک لیا

چترال ( محکم الدین محکم ) دروش کے 450 زلزلہ متاثرہ خاندان دئے گئے ڈیڈ لائن کے مطابق بدھ کی صبح 9بجے دروش شہر سے لانگ مارچ کرتے ہوئے افغانستان کی طرف اپنے احتجاجی سفر کا آغاز کیا ۔ اور بیس کلومیٹر سفر کرنے کے بعد جب میر کھنی پوسٹ پہنچے ۔ تو چترال سکاؤٹس نے انہیں روک لیا ہے ۔ جو کہ چترال پشاور روڈ پر پڑاؤ ڈالا ہوا ہے ، تاہم ہجرت کرنے والے زلزلہ متاثرین ارندو کے راستے صوبہ کنڑ میں داخل ہونے کیلئے راستہ کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اور چترال سکاؤٹس کے آفیسرز اور احتجاجی لوگوں کے مابین مذاکرات جاری ہیں ۔ جو تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں ۔ ہجرت کرکے افغانستان جانے والے ان ساڑھے چار سو افراد کی نمایندگی حاجی محترم شاہ ، قاری نظام الدین ، صلاح الدین ،عبدالباری ، شہزادہ ضیاء الرحمن اور پاکستان پیپلز پارٹی دروش کے صدر شیرجوان
کر رہے ہیں ۔ ہجرت کرنے والوں میں دمیل ، عشریت ، شیشی کوہ ، جینجریت ، سویر ، جنجریت کوہ ، آزودام ، شیشی ، خیر آباد ،وارڈاپ ، پوٹنیاندہ ، شاہ نگار ، گوس ، کلدام وغیرہ دیہات سمیت دروش شہر کے متاثرین شامل ہیں ۔ سابق ناظم اور لانگ مارچ کے محرک عبدالباری نے میر کھنی پڑاؤ سے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ۔ کہ فی الحال اُنہیں میر کھنی چترال سکاؤٹس چیک پوسٹ پر ارندو بارڈر ایریا میں داخل ونے سے روک دیا گیا ہے ۔ تاہم انہوں نے چترال سکاؤٹس کے آفیسران سے مطالبہ کیا ہے ۔ کہ ہمیں راستہ دیا جائے ۔ لیکن ابھی تک اس حوالے سے چترال سکاؤٹس کے کسی آفیسر اُن سے باضابطہ بات نہیں کی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہجرت کرنے والوں نے چترال پشاور روڈ پر ہی پڑاؤ ڈال دیا ہے ۔ اور رات یہاں گزاریں گے ۔ انہوں کہا ۔ کہ ہجرت کرنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں ۔ جو بیمار ہیں ۔ اُن کو کچھ ہو گیا ۔ تو چترال کی ضلعی انتظامیہ اس کی ذمہ دار ہو گی ۔ عبد الباری نے کہا ۔ کہ چترال کی ضلعی انتظامیہ متاثرین کو چار مہیینوں تک بے وقوف بنا تا رہا ۔ چار مرتبہ سروے کئے گئے ۔ اور فہرستیں تیار ہونے کے باوجود امدادی چیکوں سے محروم رکھا گیا ۔ جبکہ ہم سے کم نقصانات والے اقربا پروری اور تعلق کی بنیاد پر امدادی چیک وصول کئے ۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ چار مہینوں سے متاثرہ افراد در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد مجبورا ہجرت کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا ۔ کہ متاثرین کے ساتھ دھو کا کرنے والے آفیسران کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے ۔ انہوں نے کہا ، کہ ایک گینگ کی صورت میں ضلعی انتظامیہ کے آفیسران اُن کی بے چارگی کا ناجائز فائدہ اُٹھارہے ہیں ۔ جسے وہ اس ملک میں رہ کر مزید برداشت نہیں کر سکتے ۔ اس لئے متفقہ طور پر افغانستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اور آج بیس کلومیٹر پیدل سفر کرکے اپنے منزل کی طرف جانے کا آغاز کر دیا ہے ۔ اس حوالے سے جب اسسٹنٹ کمشنر دروش بشارت احمد سے ایکسپریس نے خصوصی بات چیت کی تو انہوں نے کہا ۔ کہ صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی طرف سے زلزلے کے چیکوں کی تقسیم کا کام بند کر دیا گیا ہے ۔ جو لوگ احتجاج اور ہجرت کرنے پر اُتر آئے ہیں ،اُن کا یہ طریقہ بالکل مناسب نہیں ۔ یہ مسئلہ اب بھی گفت و شنید سے ہی حل ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ اس قسم کے چیکوں کا مطالبہ پورے چترال میں کیا جاتا ہے ۔ اور اب بھی پانچ ہزار سے زیادہ درخواستیں موجود ہیں ۔ جن کیلئے مزید سات آٹھ کروڑ روپے فنڈ کی ضرورت ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں