309

گورنمنٹ ہائر سکینڈری اسکول بانگ میں یوم والدین۔۔۔۔۔تحریر:شیرولی خان اسیرؔ

چھبیس ماہ حال کو جی ایچ ایس بانگ میں یوم والدین کی تقریب میں بطور مہمان مدعو تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ اس ادارے کی کسی تقریب میں میری دوسری مرتبہ شرکت تھی۔ جب بھی اس ادارے کے اندر جانے کا اتفاق ہوتا ہے ماضی میری آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوتا ہے۔ سٹیج پر بیٹھتے ہی 1956 کا وہ نقشہ نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے جب میں اس اسکول کی جماعت اول میں داخل ہوا تھا۔ پانج سال یہاں طالب العلم رہا۔ بانگ پولو گراؤنڈ “پڑینج” کے کنارے ایستادہ وہ کچی عمارت، وہ چھوٹے چھوٹے کمرے، وہ ایک یا دو اساتذہ اور وہی بیس پچیس پھٹے پرانے کپڑوں میں لپٹے طلباء اس ادارے کی کل کائینات تھے۔ ان پانج تعلیمی سالوں کے دوران موڑ بانگ کے استاد شاہ مسلم مرحوم ، بونی کے سید محمد شیر مرحوم، ہنزہ کے محمد کریم مرحوم اور ان کے بعد محترم سید دینار علی شاہ یکے بعد دگرے ہمارے استاد رہے۔ پرائمری تعلیم کا وہ زمانہ ہم نے روزانہ سات میل سفر کرتے اسکول کے ننگےفرش پر بیٹھے گزارا تھا۔

آج میرے سامنے صاف ستھرے لباس میں ملبوس بچوں کی ایک بڑی جمیعت جلوہ افروز تھی۔ ماؤں اور باپوں کی بڑی تعداد کرسیوں پر بیٹھی ہمہ تن گوش تھی۔ میرے پہلو میں جوان برنا اعلیٰ تعلیم سے اراستہ اساتذہ براجمان تھے ۔ میرے سامنے گویا ایک بالکل مختلف دنیا آباد تھی۔ اس پرائمری اسکول کا وہ دبلا پتلا بچہ آج سفید ریش دادا بن گیا تھا۔ ان چھیاسٹھ سالوں کے سفر میں اس کچی عمارت میں قائم پرائمری اسکول پکی عمارت میں داخل ہوگیا تھا۔اس کے ساتھ مڈل ، ہائی اور ہائیر سکینڈری اسکول کی شاندار عمارتیں دعوت نظارہ دے رہی تھیں۔ اللہ پاک کی ان مہربانیوں کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے  دل سے شکر کی صدائیں نکل رہی ہیں کہ اللہ پاک نے نہ صرف اتنی طویل زندگی بخشی ہے بلکہ تعلیم و تربیت کے شعبے میں کم وبیش پچاس برس خدمات انجام دینے کا شرف بھی عطا فرمایا ہے۔  اسی اسکول کے درجہ مڈل سے لے کر ہائر سیکنڈری سطح کو پہنچنے تک میرے قریبی عزیزوں اور شاگردوں نے یہاں کے بچوں کوپڑھایا بھی اور اسکول کے صدر معلم کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ میرے والد کے ماموں زاد بھائی مرزا عزیز مرحوم کے فرزند ارجمند، شہرت یافتہ استاد اور اسکول منتظم نادر عزیز،  میرے چچازاد بھائی اقبال نادر خان، میرے عزیز شاگرد شبیر خان اور درانی مختلف وقتوں میں اس ادارے کے سربراہ رہے۔ 1992-93 میں مجھے بھی ڈیڑھ سال کے لیے اپنے اس مادر انسٹیٹیوٹ کا صدر معلم بننے کا اعزاز ملا تھا۔ بحیثیت ایس ڈی او اور ڈی ای او اس کا معائنہ بھی کیا۔ آج کل میرا ایک اور بھتیجا مسٹر الیاس کریم انچارج پرنسپل کی حیثیت سے اس اسکول کے سربراہ ہیں جب کہ شاگردوں کی ایک بڑی تعداد مدرسی کے فرائض انجام دے رہی ہے۔

عمر کی اس منزل میں ایک گھنٹے کے لیے ایک جگہہ بیٹھ کر کسی کا سننا گران گزرتا ہے۔ میں پورے پانج گھنٹے بیٹھا رہا اور کوئی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی کیونکہ بچوں نے جو رنگا رنگ اور دلچسپی سے بھرپور پروگرام پیش کیا اس نے تھکاوٹ یا اکتاہٹ کو پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ یوم والدین کی مناسبت سے بچوں کا پروگرام ہر لحاظ سے قابل تعریف تھا۔

تقریب میں شریک طلبہ اور والدین کا نظم و ضبط بھی بہت عمدہ رہا۔ کیوں نہ ہو جب نظم ضبط کی ذمے داری بہت ہی تجربہ کار اور کامیاب منتظم استاد گل صاحب خان کے ہاتھ میں ہو۔ میرے چچازاد بھائی اور شاگرد گل صاحب خان میرے پسندیدہ قابل اور منظم اساتذہ میں سے ایک ہے۔ نظم و ضبط کی خوبصورتی کا سہرا پرنسپل اور جملہ اساتذہ کے سروں پر سجتا ہے۔

اس پروگرام کی سرگرمیوں میں بچیوں اور ان کی ماں بہنوں کی بھرپور شرکت سے پتہ چلا کہ وادی یارخون کی خواتین کافی حد تک بااختیار ہوچکی ہیں جو ترقی کی بہترین علامتوں میں سے ایک ہے۔

اسکول کے انچارج وائس پرنسپل رحمت پناہ صاحب نے بڑی تفصیل کے ساتھ اسکول کی سالانہ رپورٹ پیش کی۔ نتائج اور معیار تعلیم کا ریکارڈ سن کر دل بہت خوش ہوا کہ تعلیمی معیار کے لحاظ سے اس ادارے کا شمار معیاری اداروں میں ہونے لگا ہے۔ البتہ تدریسی عملہ کی شدید کمی دیکھ کر بے حد افسوس ہوا کہ 31 منظور شدہ آسامیوں میں سے 15 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ محکمہ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری تعلیم کے وزیر، سیکرٹری اور ڈائریکٹر صاحباں سے گزارش ہے کہ اسکول ہذا کی خالی آسامیوں کو جلد از جلد پر کریں تاکہ بچوں کی تعلیم و تربیت مزید متاثر نہ ہو۔

گورنمنٹ ہائیر سکینڈری اسکول بانگ وادی یارخون میں واحد سرکاری ادارہ ہے جو کم و بیش 25000 کی ابادی کے نونہالوں کو ایف اے، ایف ایس سی تک مفت تعلیم مہیا کرتا ہے۔ یہ وادی سو کلومیٹر لمبی ہے اور آمدورفت کی کوئی سہولت موجود نہیں یے۔ اس اسکول کے ساتھ ہوسٹل کا انتظام ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ اس وقت دور دراز گاؤنوں کے بچے اپنے رشتے داروں کے گھروں میں ٹھہر کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو یقیناً موزون رہائش گاہ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاؤہ اسکول کے لیے ایک بس کا انتظام ہو جائے تو بچارے لڑکے اور لڑکیاں روزانہ بارہ چودہ کلومیٹر پیدل سفر کی صغوبت سے نجات پا سکتے ہیں اور ان کا قیمتی وقت بچ سکتا ہے۔ میں مخیر حضرات اور قومی نمائیندوں سے گزارش کروں گا کہ آئیے ہم مل کر ان بچوں کے لیے ایک بس خریدیں۔

 

اسکول کے انچارج پرنسپل صاحب نے اپنی تقریر میں اہل علاقہ کی بڑی تعریف کی جو حقیقت تھی یا ہماری دلجوئی، میں سمجھ نہیں سکا۔ پرنسپل صاحب نے طلبہ کی تعداد کے متعلق بتایا کہ ضلع اپر چترال میں جی ایچ ایس ایس بانگ میں طلبہ کی تعداد تمام اسکولوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جب کہ اسٹاف کی تعداد سب سے کم ہے۔  اسکول کے مسائل بتاتے ہوئے اسٹاف کی کمی، رابط سڑک کی غیر موجودگی اور طلبہ میں غیر حاضری کے رجحان کا خاص طور پر ذکر کیا۔

 جہاں تک رابط سڑک کا سوال ہے اسے تحصیل انتظامیہ بحال کر سکتی ہے کیونکہ پڑینج پولو گراؤنڈ اور اسکول کی قدیم سڑک پر چند افراد نے غیر قانونی قبضہ جما رکھا  ہے۔ پرنسپل کو چاہیے کہ ایک خط اے اے سی مستوج کو اس بابت لکھے تاکہ وہ اسکول کی سڑک بحال کراسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں