507

جرائم،معاشرہ اور قانون۔۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

اگرچہ کوئی بھی معاشرہ انسانی قتل سمیت کسی بھی جرم کے تدارک کاتقاضاکرتاہے اورکوئی بھی شخص چاہے درپردہ منفی سوچ کاحامل اور معاشرتی برائیوں میں ملوث کیوں نہ ہوبظاہروہ بھی جرائم کی حمایت جیسے اقدام کی جراٗت نہیں کرسکتالیکن اچھائیوں ،مثبت سرگرمیوں، جملہ معاشرتی جرائم کے تدارک کے لئے قائم اداروں اورنظام عدل و انصاف کی موجودگی کے باوجودجرائم کاہونامعاشرتی فطرت ہے اس حقیقت کو بھی رد نہیں کیاجاسکتااوراس حقیقت کی بنیاد پر دیکھاجائے تو ترقی پذیر،پسماندہ اور تعلیمی لحاظ سے کمزور ممالک کی بہ نسبت نوعیت مختلف اورشرح کم ہی سہی مگرمہذب کہلاتے معاشروں اورقانون پر سختی سے عملدرآمدکرنے اوربلاامتیازانصاف کی فراہمی کے لئے شہرت رکھتے ممالک میں بھی جرائم رونماء ہوتے رہتے ہیں۔اس تناظرمیں کوئی جرم سرزدہونے کے بعد ایساکیوں ہواکاسوال اٹھانے سے شائد اہم سوال یہ ہوتاہے کہ جرم کس نے کیا،کیاجرم میں ملوث ملزم یاملزمان پکڑے گئے اورکیامتاثرہ فردیاخاندان کو انصاف مل گیا؟کیونکہ کوئی بھی واقعہ رونماء ہونے کے بعد ملزمان کی عدم گرفتاری کی صورت میں پولیس کے کردارپرسوالات کھڑے کئے جاتے ہیں اور پولیس کے روائتی طریقہ کاراورتھانہ کلچرسے منسوب مبینہ حقائق کے تناظرمیں شائد ایساکرنے والے کسی حد تک حق بجانب بھی ہوتے ہیں۔بہرحال بدسے بدنام براکے مصداق جہاں پولیس کے کردارپر انگلیاں اٹھتی ہیں وہیں بعض واقعات میں پولیس کے مثالی کارکردارکو نہ صرف سماج میں سراہا جاتاہے بلکہ وہ پورے محکمہ کے لئے فخراوراعزازکاچمکتاہوانشان بن جاتاہے۔آج میں نے اپنے کالم میں جن تین واقعات کوزیرقلم لانے کی کوشش کی ہے وہ خیبر پختونخواکے مختلف علاقوں میں پیش آئے ہیں ۔ان میں پہلاواقعہ ماہ اپریل میں ملاکنڈڈویژن کے ضلع بونیر میں پیش آیاجس میں اقلیتی نشست پرخیبرپختونخوااسمبلی کے رکن ڈاکٹرسورن سنگھ کوان کی رہائش گاہ کے قریب گولی مارکرقتل کیاگیا۔ آنجہانی ڈاکٹر سورن سنگھ اقلیتی برادری کے اہم سپوت ،پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھتے متحرک سیاسی ورکراور وزیراعلیٰ کے معان خصوصی برائے اقلیتی امور تھے جبکہ چندسال قبل ایک نجی ٹی وی چینل سے بھی وابستہ رہے تھے۔آنجہانی سورن سنگھ بہت اچھے انسان اور ایک محب وطن شہری تھے اور اپنی حب الوطنی کے جذبے کااظہاروہ اکثرجلسوں اورٹی وی کے مذاکراتی پروگراموں میں اظہارخیال کرتے ہوئے کیاکرتے تھے۔ قتل کی مذکورہ واردات کے تیسرے دن بونیر نے پولیس قاتلوں کاسراغ لگاکر انہیں گرفتارکرلیااور یہ بونیرپولیس کی بہت بڑی کامیابی تھی کیونکہ ان کاقتل بڑاقومی سانحہ اور ناقابل برداشت صدمہ توتھاہی لیکن اگرپولیس ان کے قاتلوں کی گرفتاری میں کامیاب نہ ہوتی اوریہ ثابت نہ ہوتاکہ ان کے قتل میں کوئی اور نہیں بلکہ مبینہ طورپر ان کی اپنی اقلیتی برادری کاشخص ملوث ہے وہ بھی ایسی صورتحال میں کہ قتل کی ذمہ داری لینے سے متعلق تحریک طالبان سے منسوب بیان بھی میڈیاکی زینت بناتھاتودشمن ملک بھارت اور غیرملکی ایجنڈاپر کاربند اسلام دشمن قوتوں کو اسلام اور پاکستان بدنام کرنے کے پروپیگنڈے کاموقع ہاتھ لگ جاتااور وہ اس موقع کو کبھی بھی ضائع نہ ہونے دیتے ہوئے بس یہی کہتے سنائی اور دکھائی دیتے کہ پاکستان میں اقلیتوں کوتحفظ حاصل نہیں جبکہ مسلمان دہشت گردہیں مگر بونیرپولیس کی بروقت کاروائی کی بدولت قاتل بھی گرفتارہوئے اور یہ بھی دنیاپر واضح ہواکہ بلدیوکمارنامی غیرمسلم شخص مبینہ طورپر انہیں قتل کرانے کا منصوبہ ساز رہا اور یہ سب کچھ مذہب ومسلک اور عقیدے کی نہیں بلکہ سیاسی عداوت کی بنیادپرکیاگیاہے۔ بہرحال ایک طرف اگر مذکورہ واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے اوراس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہوگی تودوسری جانب مذکورہ واقعہ کے رونماء ہونے کے بعد پولیس کی جانداراور شاندار کارکردگی نہ صرف قابل تعریف رہی بلکہ اس سے تقلید کی اچھی مثال بھی قائم ہوئی ہے۔بلاشبہ بونیرپولیس نے ملک وقوم کوبدنامی سے بھی بچایااور محکمہ پولیس کی ساکھ کوبھی بہترکیا۔آنجہانی ڈاکٹرسورن سنگھ کے قتل کے واقعہ کے بعد تیسراقابل ذکرواقعہ گزشتہ دنوں خیبرپختونخواکے ضلع ایبٹ آباد میں جلائی جانیوالی طالبہ عنبرین کاہے جس پراپنی سہیلی کے مبینہ فرارمیں مدد دینے کاالزام تھا۔میڈیاکے ذریعے موصولہ اطلاعات کے مطابق مقتول طالبہ کے قتل میں مبینہ طورپرعلاقے کے ناظم اورمقتولہ کی والدہ بھی شامل تھیں ۔ادھرایبٹ آبادکے ضلعی پولیس آفیسر خرم رشید نے میڈیاکانفرنس میں بتایاہے کہ مذکورہ واقعے میں ملوث16میں سے 14ملزمان کو گرفتارکیاجاچکاہے اور عدالت سے ان کاجسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیاگیاہے۔مبینہ اطلاع یہ بھی ہے کہ طالبہ عنبرین کووہاں کے مقامی جرگہ کے حکم پر قتل کیاگیاہے اس واقعہ میں بھی مقامی پولیس کی کارکردگی انتہائی شانداررہی ۔تیسراپیش آنے والاواقعہ اگرچہ پس منظراور نوعیت کے لحاظ سے بڑانہیں مگرپولیس کی پھرتی اور بروقت ایکشن لینے کے لحاظ سے قابل ذکر ضرورہے جس میں دیر لوئر سے تعلق رکھنے والے دو مبینہ ملزمان نے سوات کے علاقہ بریکوٹ سے ایک نان کسٹم پیڈسوزوکی گاڑی کرائے پر لائے اور تالاش کے علاقہ میں اسلحہ کی نوک پر مدعی سے گاڑی بھی چھین لی اور اسے ایک اور ساتھی سمیت تشدد کانشانہ بنانے کے بعد ویرانے میں چھوڑدیا۔واقعہ کامقدمہ پولیس تھانہ اوچ میں درج ہونے کے بعد ڈی ایس پی جہانگیرخان کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے پھرتی دکھاتے ہوئے اگلے روز تالاش کے علاقہ سے ایک مبینہ ملزم کوگرفتاکرکے مسروقہ گاڑی برآمد کرلی جبکہ چند روز بعد دوسرے ملزم کوبھی دھرلیاگیا۔کہنے ،لکھنے اور بتانے کامقصد یہ ہے کہ جرائم نہ ہوں اس سے تواچھی کوئی بات ہونہیں سکتی لیکن جرم ہونے پر پولیس کی بروقت کارروائی سے عوام میں اطمینان کااحساس بڑھے گاجبکہ جرائم کی شرح تب بڑھتی ہے جب قانون کی عملداری نہ ہواگرذکر شدہ واقعات کی طرح کاکردارپولیس نے مسقبل میں برقراررکھااوردیگرعلاقوں کی پولیس نے ان کی تقلیدکی تواس سے جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی اورتب بلاشبہ قتل اور دیگرسنگین نوعیت کی وارداتوں میں نمایاں کمی بھی آئے گی جبکہ متاثرہ افراد اور کے گھرانوں کو انصاف بھی ملے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں