348

دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔غریبوں کی سنو ۔۔۔۔۔محمد جاویدحیات

۔۔۔۔موجودہ ناقابل بیان مہینگاٸی کا الزام کسی پر ڈالنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ یہ رب کی طرف سے ہماری نا شکریوں کا نتیجہ تو نہیں ۔کسی زمانے میں ہم ایک ایک لقمے کو ترسنے والی قوم ، قحط کے ہاتھوں مر کھپنے والی قوم ،ننگے پیر چلنے والی، قوم فاقوں کےہاتھوں اپنےبچوں کو ذبح کرنے والی قوم کی عیاشیاں ناقابل بیان ہوگٸیں تھیں ہم موج مستی میں جھومنے لگے تھے طرح طرح کی بے ضبطگیاں، لا قانونیت اور بد عنوانیاں عود کر آٸی تھیں بحیثیت عاجزانسان شکر کا جوہر مر چکا تھا ۔اب مہینگاٸی آٸی تو تھوڑی سی عقل بھی آٸی ہمیں اپنی موت و حیات کی کشمکش محسوس ہوٸی ۔۔لوگ ”روزی روٹی “ اس لیے کہتے ہیں کہ روٹی بنیادی روزی ہے ۔باقی سب نعمتیں ثانوی ہیں ۔بندے کو روٹی روکھی سوکھی مل جاۓ تو زندگی کی گاڑی چلے گی۔اب صورتحال اس کےبرعکس ہے ۔ہوشروبا مہینگاٸی نے اب وہ بنیادی لقمہ بھی چھین لیا ہے لوگ حیران و پریشان ہیں حالت اضطراری ہے ۔بھٹو سینئر ایک عوامی لیڈر تھے اپنے دور اقتدار میں شمالی علاقہ جات اور چترال جیسے پسماندہ علاقوں کا خود دورہ کیا لوگوں کی مجبوریاں خود ملاحذہ فرمایا ۔ان کی اس پسماندہ علاقوں پر تین ایسے احسانات ہیں جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا ۔۔انہوں نے لاواری ٹنل کی بنیاد رکھی ۔۔انہوں نے یہاں کے لوگوں کو عرب ممالک میں کمپنیوں میں بطور مزدور بھیجا انہوں نے چترال اور شمالی علاقہ جات کے لیے ضروری اشیاۓ خوردونوش رعایتی قیمت (سبسیڈایزڈ ریٹ ) پر دینے کا حکم دیا ان اشیا میں نمک، مٹی کا تیل، چینی، گھی اور غلہ شامل تھا یہ چیزیں ڈپو میں ملتی تھیں اور غریب عوام فاٸیدہ اٹھاتے ۔۔آہستہ آہستہ دوسری چیزوں کی رعایتی قیمتیں ختم کر دی گٸیں تیل اور غلہ رہ گیا ۔۔تیل تو بین الاقوامی کاروبار میں آتا ہے لیکن غلہ اب تک چترال اورشمالی علاقہ جات میں رعایتی قیمت پر گرین گوداموں میں مل جاتا تھا ۔چترال میں آٹا ملز نہیں تھے کٸ سال پہلے جب نیچے علاقوں سے لوگ مل لگانے کا پرمٹ لینے کی کوشش کی تو اس وقت کے عوامی رہنما شہزادہ محی الدیں مرحوم اور دوسرے لیڈروں نے ان کو روک کر مل والوں کو دیسی نکالا دیا ۔۔لیکن چند سال قبل چترال میں پھر سے ادھر ادھر ملز کھولے گئے گوداموں سے غلہ غیر قانونی طریقوں سے حاصل کیا جانے لگا مل کا آٹا دکانوں میں ملنے لگا ۔ہمارےسیاسی لیڈروں کی اپنی پڑی ہے اب جب گندم کی رعایتی قیمت ختم کردی گٸ 57 روپے کلو کے حساب سے جو رعایتی قیمت میں گندم گوداموں میں ملتی تھی اس کو یکدم دگنا کیا گیا اور ایک کلو گندم کی قیمت 115 روپیہ کیا گیا ۔جو عوام کی پہنچ سےباہر ہے۔قومی اسمبلی میں چترال کا نماٸندہ ممبر قومی اسمبلی مولانا عبد الاکبر چترالی نے یہ مسلہ پارلیمنٹ میں اٹھایا جمعیت علماۓ اسلام چترال کے رہنمانے صوباٸی نگران حکومت تک اپنی آواز پہنچاٸی لیکن ابھی تک کوٸی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔۔نہ وزیر اعظم صاحب نے اس دھاٸی کو سنجیدہ لیا اور نہ نگران حکومت نے اس کا نوٹس لیا ۔۔بات پسماندہ چترالی عوام کی موت و حیات کی ہے ۔لوگ بے بس ہوگئے ہیں میدان میں آۓ ہیں جماعت اسلامی چترال نے ایک پر امن دھرنے کا آعاز کیا ہے اس دھرنے کا مقصد صرف اپنی بے بسی حکومت پہ واضح کرنا ہے لوگوں پر فاقوں کی نوبت آٸی ہے ۔غریبوں کی چیخیں نکل رہی ہیں چترال پہلے سے آفت زدہ ہے سیلاب اور زلزلے نےتباہی مچا دی ہے لوگ اس آفت سے نکلے نہیں ہیں ۔ملک میں مہینگاٸی کی لہر اپنی جگہ لیکن انشا اللہ قوم اس مشکل سے نکلے گی اللہ اچھے دن دکھاۓ گا اللہ ہمارے حکرانوں کے لیے اسانیاں پیدا کرے ۔لیکن چترال کی پسماندگی اور غربت اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتی کہ غلے کی سبسیڈی ختم کی جاۓ ۔یہاں پہ نہ مزدوری ہے نہ زرعی زمینات ہیں جہان فصل اگاٸ جاۓ لے دے کے جینے کا سامان غلے کی یہ سبسیڈی تھی غریب کی قوت خرید اس حد تک تھی کہ مہینے بھر مزدوری کرکے کوڑی کوڑی جمع کرکے گودام کا رخ کرتا اور پانچ ہزار سات روپے میں سو کلو گندم خرید کر ایک مہینہ بال بچوں کو پالتا اور دوسرے مہینے کہ لیے محنت کرتا اب 13500 اس کی پہنچ سے باہر ہے یہاں پر اتھوپیا، گینی اور افریقہ کی سی صورت حال ہوگی اس لیے لوگ پر امن دھرنے کے زریعے اپنی فریاد ایوان اقتدار تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں البتہ سیاست سے بالا تر ہوکر متحد ہو کر سارے لیڈرز صرف غریب چترالی عوام کی آواز بن کر کوشش کر رہے ہیں اور امید ہے انشا اللہ حکمران چترال کو اس بنیادی حق سے محروم نہیں کریں گے اور گوداموں میں گندم کی رعایتی قیمت پھر سے بحال کریں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں