317

’’گندھارا ہند کو لینگویچ کانفرنس چترال میں ‘‘ ……محمد جاوید حیات

ٹاؤن ہال چترال میں مادری زبانوں کے حوالے سے گندھارا ہندکو لینگیویچ کانفرس انجمن ترقی کہوار کے تعاؤن سے منغقد ہو رہی تھی ۔سارے انتظامات مکمل تھے۔چترال کے ادیب شاعر ،اہل علم ،ادب دوست،بزرگ شہری، سب حسب روایت کانفرنس میں شامل تھے ۔ اس کانفرنس میں خواتیں بھی بھرپور طور پر مدعو تھیں ۔نوجوان کام میں لگے ہوئے تھے ۔پشاور سے آئے ہوئے مہمانوں میں گندھارا ہنکو بورڈ کے جنرل سیکریٹری محمد ضیاء الدین صاحب، گندھارا ہنکو بورڈ کے وائیس چرمین جنا ب ڈاکٹر صلاح الدین صاحب،بورڈکے ایکزیکٹیو ممبر جناب تسخیم ایڈوکیٹ ،اور آفس کے کمپیوٹر اپریٹر ارشد ضیاء صدیقی شامل تھے۔چترال میں انجمن ترقی کہوار کا اشتراک تھا ۔انجمن کے صدر شہزادہ تنویر الملک اور پروگرام کے کنویئنر محکم الدین صاحب اپنے کارکنوں سمیت کام میں لگے ہوئے تھے ۔چترالیوں کا پشاور سے انس ہے ۔ایک جذباتی وابستگی ہے ۔پشاور میں رہتے ہوئے پشتو سے وابستگی ہے ۔لوگوں کو ہندکو بولتے کم کم سنا اور دیکھا ہے ۔اللہ پاک جس کام کا بیڑہ جس کے کندھوں پہ ڈالنا چاہتا ہے ۔اس کو پہلے میر کارواں ہونے کی صلاحیت عطا کرتا ہے ۔کارواں کے سب افراد کو ان صلاحیتوں سے مالامال کر دیتا ہے ۔تاکہ وہ منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکیں ہندکوزبان کو بھی خاطرغزنوی دیا،اعجاز قریشی دیا،محمد ضیاء الدین دیا،ڈاکٹر صلاح الدین دیا۔اور کئی ایسے افراد دیئے جو اپنے تن من دھن اپنی زبان پہ قربان کرنے پہ تیار ہیں ۔انھوں نے چند سالوں میں ہندکو کو اس صف میں لا کر کھڑا کیا جہان پر دوسری زبانیں صدیوں بعد کھڑی ہوسکتی ہیں ۔ان کی قیادت نے اس کارواں میں ایسے افرادکو شامل کیا جو اپنی ثقافت ،اپنی زبان ،اور اپنی تہذیب سے محبت کرتے ہیں ۔وہ قیادت چاہتے ہیں ۔کام کرنے کو پسند کرتے ہیں ۔آج ہندکو ادبی بورڈ،ہند کو ادبی اکیڈیمی دوسری مادری زبانوں کے لئے مثال ہے ۔پہلی نشست کے سٹیچ سیکرٹری نے جب کہا کہ ماں کے مبارک منہ سے نکلا ہوا لفظ ماں کی طرح محترم ہوتا ہے ۔ماں کی طرح شرین ہوتا ہے۔تو میں تڑپ اٹھا ۔۔۔مجھے پشاور سے روحانی وابستگی ہے ۔میرے ابو پشاور میں پلے بڑھے تعلیم حاصل کی ۔۔وہ کہا کرتے تھے ۔۔ہند کو شرین زبان ہے ۔۔۔آج وہ سب مناظر نظروں کے سامنے تھے ۔وہ ہندکو تھی ۔وہ الفاظ تھے ،وہ جملے تھے ،وہ ہنستے مسکراتے چہرے تھے،وہ دھیمی لہجہ تھا ۔وہ محبت بھرے الفاظ تھے ،وہ شستہ اردو تھی ۔۔ایسا لگتاتھا کہ یہ چہرے لکھنویا دہلی سے تشریف لائے ہیں ۔ذہن میں سوال اٹھتا کہ اتنی شرین زبان کیلئے ابھی تک کام کیوں نہیں ہوا۔۔۔سمینار کا موضوع۔۔’’چترال میں مادری زبانوں اور ثقافت کی ترقی کا عزم۔۔‘‘ تھا۔۔مقالے پڑھے جارھے تھے ۔ڈاکٹر فیضی نے دریائے چترال کے بارے میں کہا کہ یہ سونا اگلتا ہے ۔وادی پشاور کو سونوں سے بھر دیتا ہے ۔لیکن پشاور میں اس کو دریائے ’’کابل‘‘کہتے ہیں ۔اس کو ’’دریائے چترال‘‘کہا کرو ۔۔عبقری ایسے ہی ہوتے ہیں ۔۔صدیوں کی سوچ لمحوں میں حقیقت کے روپ میں ڈال دیتے ہیں ۔موضوعات اچھے تھے فاضل مقالہ نگاروں نے ا پنی موضوعات سے انصاف کیا ۔۔ہر کام اپنی جگہ ٹھیک تھا ہر سرگرمی اپنی جگہ درست تھی ۔۔ایک مرحلے پر جب مہمان خصوصی معروف سیاسی کارکن عبدالطیف صاحب نے اپنا خطاب ہند کو میں کیا تو مہمان غش غش کر ا ٹھے۔ان کی مسکراہٹیں دیدنی تھیں ۔۔۔بعض شخصیات ’’کرشماتی ‘‘ہوتی ہیں ۔ان کی زات میں ایک کشش ہوتی ہے ۔جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے ان کی شخصیت ستاروں کی جھرمٹ میں چاند،پھولوں کی جھرمٹ میں گلاب،خوش آوازوں کی جھرمٹ میں بلبل،کرداروں کی جھرمٹ میں ماڈل اور انسانوں کی جھرمٹ میں فرشتوں جیسی نظر آتی ہے ۔ڈاکٹر صلاح الدین ایسے ہی کرشماتی شخصیت ہیں ۔اپنے سے چھوٹوں کا احترام اپنے سے بڑوں کی طرح کرتے ہیں ۔ان کے چہرے پر محبت کا ایک ایسا نور پھیلا ہوا ہوتا ہے کہ ہر ایک اس کی طرف کیھچا چلا جاتا ہے ۔وہ دل کے معروف ڈاکٹر ہیں ۔وہ دل کے امراض جاننے کے علاوہ دل کی دھڑکنوں میں اترنا بھی جانتا ہے ۔انھوں نے اپنی زات کا نقش دل پہ چھوڑا ۔۔اور مادری زبانوں کی اس کانفرس کو ماں کی طرح محترم اور خوبصورت بنا یا ۔ڈاکٹر صلاح الدین نے چترال کی سر زمین کو محبت کی سرزمین کہا ۔اور خود ایک بانکے دلربا کی طرح چترال کی محبت لوٹ لی ۔آپ کے میزبان آپ کو مہمان کہتے رہے۔مگر وہ سب سے بڑھ کر میزبان ہی رہا۔اس کے لفظ لفظ میں خلوص تھا اس سمے مجھے وہ خوبصورت لمحے یاد آئے جب ۱۹۹۸ء کو لاہور میں ال پاکستان گولڈن جبلی مشاعرے میں حاضری کا شرف رہا ۔ان بڑے بڑوں میں خاطر غزنوی نے مجھے سینے سے لگا کر کہا ۔۔۔’’بیٹا صوبہ سرحد [اس وقت کے پی کے نہ تھا ]کے شہزآدے لگ رہے ہو کیونکہ چترال خوابوں کے شہزآدوں کی سر زمین ہے ‘‘۔۔۔ان مغزز مہمانوں کی صحبت میں ایسا لگا کہ مٹی کے یہ بت جنھیں بدن کہتے ہیں گو کہ ہمارے الگ الگ ہیں مگر ان سب میں ایک ہی روح تڑپ رہی ہوتی ہے۔جن کے دل میرے سینے میں دھڑکتے تھے وہ محمد ضیاء الدین ،تسخیم حسین ،ارشد ضیاء صدیقی اور ڈاکٹر صلاح الدین کے تھے اور مجھے یقین ہے ڈاکٹر صلا ح الدین دھڑکنوں کی زبان سے بھی خوب واقف ہونگے۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں