279

حکومتی اداروں کی نااہلی اور بددیانتی کے سبب کروڑوں روپے کے فنڈ کے استعمال کے باوجود علاقہ ایون کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا

چترال ( محکم الدین ایونی ) ایون کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں نے اس امر پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا ہے ۔ کہ حکومتی اداروں کی نااہلی اور بددیانتی کے سبب کروڑوں روپے کے فنڈ کے استعمال کے باوجود علاقہ ایون کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔ اور سیلاب آنے سے پہلے ہی ایون کا وسیع علاقہ ابھی سے مصنوعی جھیل کے اندر ڈوب رہا ہے ۔ جب کہ دریائے چترال کی طغیانی اور سیلاب کا سیزن ابھی باقی ہے ۔ گذشتہ سال سیلاب کی وجہ سے بننے والی مصنوعی جھیل کی نکاسی اور نالہ ایون کی چینلائزیشن کیلئے مقامی لوگوں کے بار بار مطالبے پر حکومت نے تقریبا چارکروڑ روپے کا فنڈ فراہم کیا تھا ۔ اور متاثرہ لوگوں کو یہ یقین دھانی کرائی گئی تھی ۔ کہ نالہ ایون کی صفائی کے ساتھ مصنوعی جھیل کی صحیح معنوں میں کھول دیا جائے گا ۔ اور دریائے چترال کا راستہ ایون نالے کے دہانے پر مکمل طور پر صاف کیا جائے گا ۔ لیکن چینلائزیشن معیار کے مطابق ہوا ۔ اور نہ جھیل کو کھولنے کا کام مکمل کیا گیا۔ کیونکہ کہ ٹھیکہ داروں کے پاس مطلوبہ مشینریز ہی موجود نہیں تھے ۔ متعلقہ ادارے کی ایما پر مقامی لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کمزور مشنری کا استعمال کیا گیا ۔ اور نتیجتا جھیل کھولنے کاکام مکمل نہ ہو سکا ۔ جس کی وجہ سے استعمال شدہ فنڈ بھی ضائع ہو ا ۔ اور فنڈ کے اس ضیاع میں محکمہ ایریگیشن چترال برابر کا ذمہ دار ہے۔ متاثرہ دیہات درخناندہ ،تھوڑیاندہ اور موڑدہ کے لوگوں نے اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ کہ حکومت کی طرف سے فنڈ کے خرچ کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں ۔ لیکن اس فنڈ کے استعمال کے بعد لوگوں اور علاقے کو کیا ملا ، اس کے بارے میں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ۔ متاثرہ افراد واجب الدین ، غلام ابرار ،شمس الرحمن نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ، کہ اُن کی زمینات ابھی سے جھیل میں ڈوب گئے ہیں ۔ جس کی وجہ سے اُن کی کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں ۔ انہوں نے کہا ، کہ جھیل کی نکاسی کیلئے حکومت کی طرف سے فنڈ کی فراہمی پر یہ اُمید تھی ، کہ اُن کی زمینات اور فصلوں کو بچانے کا انتظام ہو جائے گا ۔ لیکن وہ خواب ثابت ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ جھیل کی روز بروز بڑھتی ہوئی سطح سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے ۔ اور درخناندہ کے علاقے کے زیادہ تر لوگ مکمل طور پر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ کیونکہ گذشتہ سال کے سیلاب سے جو زمینات اورمکانات جھیل کے اندر ڈوب گئے تھے ۔ اب پانی کی سطح ممکنہ سیلابوں کے آنے سے پہلے ہی اُس سطح کو کراس کر گیا ہے ۔ جبکہ دریائے چترال کو اپنے بلند ترین سطح تک پہنچنے کیلئے ڈیڑھ مہینے کا عرصہ باقی ہے ۔ متاثرہ لوگوں نے مطالبہ کیا ہے ۔ کہ اُن کی زمینات مستقل بنیادوں پرمصنوعی جھیل میں ڈوب جانے سے وہ زندگی گزارنے کے سلسلے میں انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ کیونکہ اس علاقے کی اکثریت کا گزر اوقات کھیتی باڑی پر ہے ۔ اس لئے حکومت انُ کیلئے خصوصی امداد کا نتظام کرے ۔ جبکہ یہ لوگ تا حال کسی بھی حکومتی امداد سے محروم ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں