540

چترال کی معاشی ابتری کب تک؟…..اسسٹنٹپروفیسرشفیق احمد

                چترال پیارےُملک پاکستان کے انتہائی شمال کی جانب سنگلاح، برف پوش  پہاڑوں کے بیچ تین (۳٪)فیصد قابل  کاشت زمین اور ستانوے (۹۷٪)فیصد پہاڑوں پر مشتمل وادی کا نام ہے۔انتہائی کم  قابل کاشت زمین کی دستیابی کے باوجود بھی چترال کی حسین وادی  اپنی غذائی ضروریات پوری کرتی  آرہی ہے۔قدیم آلایام سے اس وادی   کو دفاعی و تاریخی لحاظ سے اہمیت کے حامل , پھلوں ،پُھولوں،آبشاروں ،چشموں اور  قدرتی جھیلوں کے نظاروں سے بھر پورو دلچسپ  علاقہ ماناجاتا ہے۔”چِتر”ترکی زبان میں چراگاہ و سبزہ زاراورہند آریائی زبان میں  کھیت کو کہتے ہیں ۔قدیم ترک باشندے اپنے مال واسبا ب سمیت سفر کیا کرتے تھے ۔جب یہ ترک باشندے موجودہ چترال پہنچ  گئے ،تووسیع وعریض میدان میں بچھے  سبزہ زاراور جنگلات سے ڈھکےچراگاہ  کو دیکھ کر انتہائی خوشی کے عالم میں  با آواز بلند ” چتر،چتر”کہنے لگے ۔تو غالب گمان ہے اس علاقےکے نام کا وجہ تسمیہ بھی اسکے شاداب  چراگاہوں اور مال مویشیوں کے لئے موزوں ہونے کی وجہ  سے ہی ہے۔لفظ “چتر”بگڑ کر “چھترار”اور چھتراربگڑ کرتقریباً انگریزوں کے دور میں  چترال نام پا گئے۔اسکے علاوہ ستانوے فیصد پہاڑوں میں قیمتی  جنگلات ،قیمتی جڑی بوٹیوں کےعلاوہ  قسم قسم کے قیمتی معدنیات  کے بڑے ذخائر حکومتی توجہ کے منتظر ہیں ۔پاکستان کا سب سے اعلے لوہا اور سنگ مرمر کے قیمتی ذخائر ان پہاڑوں میں پوشیدہ ہیں ۔جو کہ ذرائع نقل و حمل اور وسائل کی عدم دستیابی( لواری ٹنل کی عدم تکمیل) کی وجہ سےبروکار لانے کے منتظرہیں ۔  چترال کےمُختلف وادیوں  میں پہاڑ گلیشئیر سے بھر پور ہونے کی وجہ سے پانی جیسی قیمتی نعمت کے ذخائرسے مالامال ہیں۔ ان وادیوں میں آسانی کے ساتھ  ڈیم بنا کر   بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کے  شدید  بحران سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔اس حوالے سے حکومت پاکستان متعلقہ شعبوں کی وساطت سے مختلف علاقوں میں پیمایش کا مرحلہ مکمل کراچکی ہے۔ گولین گول ہائیڈرل پاور  پراجیکٹ کے ۱۰۶میگاواٹ بجلی گھر  تیاری کے آخری مرحلے میں ہے۔قاقلشٹ ہاوسنگ سکیم کے لئےدریا  تریچ سے ٹنل نکال  کر موڑکہو کے مقام  پر بجلی گھر بناکر سائیفین سسٹم کے ذریعے تقریباً اٹھ کلومیٹر پر پھیلا ہوا قاقلشٹ کے وسیع وعریض میدان کو آباد کرنے کا منصوبہ تقریباً  منظوری کے اخیری مرحلے میں ہے۔اسکے علاوہ انسان کو  خداوندے پاک کی طرف سے عطاء کردہ  قدرتی وسائل کوبہتر منصوبہ بندی کر کے پائیدار طریقے سےاستعمال کرسکتاہے۔ ھخالق کائنات نے انساں کو مختلف صلاحیتیں  عطا کر کے اس دُنیا  کوتسخیرکرنے کےلئےبھیجاہے ۔سب سے اہم صلاحیت انسان کا دماغ ہے لیکن ہم پہاڑوں کے  بیچ  قید باشندے اسکو استعمال کرنے میں  بُخل کرتے ہیں ۔تمام چیزوں کو بے غیر محنت وجتن کے حاصل کرنا چاہتے ہیں اورتن آسانی کے عادی ہیں اسی کمزور پہلو کو  علامہ اقبال نے شدت سے محسوس کرتے ہوے یوں فرمایا تھا!

؏      ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالین ایرانی       لہو مجھ کو رُلاتی ہےجوانوں کی تن اسانی

ہمیں ہر گز یہ نہیں سوچنا چاہیے  کہ اﷲ تعالی نے صرف پنجاب کے سر زمین کوہی  ذرخیزی عطا کی ہے۔اسکے مقابلے میں خداوندے پاک نے  ہمارے ان سنگلاخ پہاڑوں کو بھی بے شمار بیش بہا قیمتی قدرتی ذخائر سے مالامال کررکھاہےجو دیگر ذرخیز خطوں سے کئی گنا  ذرخیز ہیں اور اقبال اس حوالے سے یوں فرماتا ہے۔

           ؏ نہیں نااُمیداقبال اپنی کشت ویراں سے    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی

مجھے چترال بازار  میںکام کرنے والے چند  پٹھان محنت کش ملے،میری عادت ہے   مجھے جب بھی کوئی مزدور  پٹھان ملتا ہے، میں اسکے ساتھ  پشتو  زبان میں گفتگو کرتاہوں،کیونکہ غلطی پر  اتنی سخت  گرفت نہ ہونے کی وجہ سے خوب مشق ہوتی رہتی ہے۔اُن سےمیں نےچترال کے  مزدوروں اور چترال کے باشندوں کے بارے میں چند سوالات   پوچھے۔ُان میں سے ایک نے کہا چترال غریب کا دبئی ہےاور دوسرے نے کہا نہیں! چترال کے لوگ ،انڈیا کے لوگ اور  عرب ممالک کے لوگ ایک جیسےطبیعت کے مالک ہیں ۔تیسرے نے کہا  آجکل پانچ لاکھ روپےکی کوئی حیثیت ہی نہیں اور چوتھے نے ہنس کر جواب دیا، اگر چترالی کے پاس پانچ لاکھ روپیہ آجائے، وہ سب سے پہلےاسکے پاس گاڑی آئے گی۔ میں ہکا بکا رہ گیا اوراپنی چترالیت پر غصہ بھی آیا اور پیسے کو اہمیت نہ دینا اسکو سب کچھ نہ سمجھنے پر خوشی بھی ہوئی ۔لیکن مِیں چترال کے مزدور سے یہ سوال پوچھتا ہوں ۔ اگر  چترال کے غیر مقامی افراد کے لئے اگرچترال دبئی سے کم نہیں تو اپکو دبئی جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ آپ کسی غیر جگہوں پر  جا کراپنی  صلاحیتوں اور قیمتی وقت کو ضائع کیوں کرتے ہو ؟کیونکہ مزدور کے لئے چترال ِمیں  بڑَے  مواقع ہیں ۔حقیقت یہ ہےکہ آج انساں تن اسانی اوراپنی صلاحیتوں سے نا واقفیت کی بناء پر  معاشرے پربوجھ بنتا  جارہا ہے ۔میں اس تجزئے کے کےحوالےسےان سوالات کے جوابات ماہرین معاشیات پر چھوڑ دیتا ہوں ۔وہچترال کے مزدور اور اسکی معیشت  پر بہتر رائے دے سکتے ہیں ۔

چترال کے جغرافیےکو  بین الاقوامی شہرت قدیم ایام سے حاصل ہے ۔موجودہ وقت میں بھی کئی ممالک کے ناپاک عزائم کو خاک میں  ملایاجا چکا ہے ۔معدنیات کے لحاظ سے جو سننے میں  آیا ہے ان میں  سونا،یورینیم ،لوہا ،گندھک،اینٹی مانی، وغیرہ ان سب کافردًفردً نام لینا مشکل بھی ہے اور ضرورت بھی نہیں ہے۔اونچے اونچے پہاڑوں میں گلیشئرز ہیں جو پورے پاکستان کو پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ خوبصورت نظارے بھی فراہم کررہے ہیں ۔یہی گلیشئر پگھل کرچترال کےبے شمار  چھوٹے بڑے دریاؤں کے ساتھ مل کرارندو کے مقام پر نورستان کے ایک چھوٹے سےدریا کے ساتھ مل کردریائے کابل نام پا کر اپنی شناخت  کھو دیتاہے۔ حق تو یہ ہے تو اسکا نام دریائے چترال ہونا چاہئے تھا ۔اس طرح یہ دریا ، چترال کے چھوٹے بڑے  وادیوں کو سیراب کرتے ہوئے انواع واقسام کے ذائقہ دار پھلوں ،سبزیوں اور جنگلات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے میدانی علاقوں کوآبیاری کرتا ہوا بحیرہ عرب میں  شامل ہو جاتا ہے۔ہم وسائل کو محفوظ کر کے اپنی بنجر زمینوں کو  لہلہاتے کھیتوں اور ذائقہ دارپھلوں  میں تبدیل کر کے  حکومت کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں ۔اس سے سیا حتکے شعبے  کو ترقی ملنے کے ساتھ ساتھ ہمیںروزگار کے وسائل اور بنیادی سہولیات  بھی میسر آئینگے ۔

                پچھلے سال دوستوں کے ہمراہ لٹکوہ “گر مچشمہ “جانے کا اتفاق ہوا ۔بہار کے دنوں اس تنگ وادی میں ٹرکوں کی ایک  لمبی قطار کھڑی تھی اور جگہ جگہ آلو  کی کاشت کے سلسلے میں  لوگ اپنی زمینوں  میں مصروف تھے ۔میں نے  مقامی لوگوں سے سوال کیا ، فصل پکنے کے بعدپیداوار کو  ملک  کی  مرکزی منڈیوں  تک پہنچانے کے لئے گاڑیوں کی قطاریں  تو سمجھ میں  آتی ہے  ،   لیکن بویائی کے موسم  میں ، گاڑیوں کی اتنی رش سمجھ سے بالا تر ہے،کیوں ؟پھر مقامی لوگوں نے بتایا آپکی بات درست ہے لیکن کاشت کے موسم میں زمینداراعلے قسم کے بیچ پنجاب  سے لاتے ہیں ۔اسکا مطلب ہے سارا سال محنت کش لوگوںاور کاروبار سے وابسطہ دیگرافرادکے وارے نیارےہیں ۔جب ہم گوہک کے مقام پر پہنچ گئے ،وہاں دریا  کے کنارے گھاس کے قطعے پر بید کے سائےتلے ہمیں  سر سر کہتے ہوئے چند   نوجواں ملے اسی گھاس کے قطعے پر قالین تکیہ بچھائےچائے کھانا سب کچھ وہیں پر میسراگئے۔ڈبل کییب سنگل کیب گاڑیاں ،گھروں کی جگہ جگہ تعمیرکا کام اورلوگوں کے چہروں پربشاشت کوئی غربت کوئی پریشانی کے اثرات دیکھائی نہیں  دے رہے تھے۔تو میں  نے  مقامی باشندوں  سے انکی معیشت ،روز گار،کاروبار اور زبان  و ثقافت کے بارے میں پوچھنا شروغ کیا ۔معلوم ہوا انکی زبان یدغا تھی ۔آج سےکئی سوسال قبل یہ قبیلہ بدخشان سے آکر یہیں پر آبادہو چکے  تھے ۔انکے بقول تقریباًپورے  لٹکوہ میں  آج سے کئی سو سال قبل یہ زبان  بولی جاتی تھی۔ اسکے بعدرواں سال ایک اور موقع پر مجھے انکی یدغا  زبان کو( ایف ۔ایل ۔ائی )پراجیکٹ کی جانب سے (یدغا،گوار بتی،دمیلی اور اشوجو )قاعدہ ترتیب دینے  کی اختتامی تقریب میں  شرکت کرنے کا  موقع ملا، ہمیں یدغا زبان کی مرتب شدہ ابتدائی قاعدے کی  کتابیں  بھی  تحفہ کے طور پر دیئےگئے ۔پھر ہم  نے اُن لوگوں سے اُنکےروزگار کے بارے میں پوچھا ، تو پتہ چلا    کہ سکوں و راحت  کی اصل  وجہ انکےکھیتوں میں ان لوگوں کی شب وروز  محنت  ومشقت ہے ۔کریم آباد وادی بھی انتہائی اونچائی پر واقع ہے لیکن مٹر اور ٹماٹر کے فصل کی کاشت اور اعلَے پیدوار کی وجہسے ملک کے مرکزی منڈیوں تک  شہرت حاصل کر چکی  ہے۔

 میں تقریباً پورا  چترال گھوم پھیر چکاہوں لیکن کہیں پر بھی سوات ،گلگت اور لٹکوہ کی طرح زراعت کے شعبے میں کوئی جدت پسندی نظر نہیں آئی ۔چند سال قبل” کہوت” تورکہو جانے کا اتفاق ہوا،  کہوت چترال کے شمال کی جانب انتہائی اونچائی پر واقع  ایک وسیع وعریض رقبے پر پھیلا ہو ایک حسین  گاؤں  ہے۔ چترال کے  مشہور خوبصورت ترین وادیوں میں شامل ہے۔وہاں پر ایک دوست نے دعوت کی  ،دسترخوان پرنہایت اعلے قسم کے تروتازہ ،صحت مند سلاد لائے گئے ، انتہائی اونچائی پر اتنے تروتازہ صحت مند سلاد۔۔۔۔۔ میزبان نے کہا آپ کھانا کھائیے میں  آپکو اس سر زمین کی ذرخیزی کے بارے میں اورانہی فصلوں  کے بارے میں معلومات فراہم کرونگا ،میزبان مجھے اپنے کھیتوں کی طرف لے گیا، کیچن گارڈن اور دیگر فصلیں  دیکھائے ۔اس میں مٹر ،ساگ ،آلو اور دیگر تازے صحت مندسبزیوں اور فصلوں  کو دیکھ کر میں حیرانگی کے عالم میں میزبان کی طرف دیکھتا  رہا ۔پھر  اس نے گندم اور جو کی فصل  کے بارے میں بتا یا،جولائی کا مہینہ تھا نشیبی علاقوں میں  تھریشنگ  کا مرحلہ مکمل ہوچکا تھا اور دوسری طرف یہ  فصل  چند انچ کے حساب سے بھی  نشونما نہیں پا چکے تھے ۔میں  نے اسے پوچھا یہ فصل کب تیار ہو گی اس نے ہنستے ہو ئے جواب دیا ، پہلےتو شاذونادر ہی فصل تیار  ہوتی ہے  ، بعض اوقات  پکنے سے قبل قبل کٹائی ہوتی ہے  اور بعض اوقات انکے اوپر برف باری بھی  ہوتی ہے۔میں حیرانگی  کے عالم میں  ان سے پوچھ لیا جو فصلیں آپکو فائدہ نہیں پہنچاتے ہیں آپ  انکو کیوں کاشت کرتے ہو ؟آپ لوگ اپنی آب و ہوا کےمطابق فصل کاشت کریں  جو آپکو زیادہ نفع دیتے ہیں ۔اس پر یہ اقبال کا یہ شعر یاد اگیا۔

؏جس کھیت سے دہقان کومیسرنہ ہو روزی           اس کھیت کےہر خوشہ گندم کو جلا دو

میزبان کا کہنا تھا یہاں رواج نہیں ہے ، دوسری بات سڑکیں  نہیں ہیں ،تیسری بات کسی نے ہمیں آگاہی نہیں دی ۔میں نے کہا آپ آنے والے  سال سے مٹر ،آلو اور شلجم وغیرہسے کاشت کا آغاز کریں رواج پائےگا۔دوسری بات جب آپ بڑی مقدار میں فصلیں  اگائیں گے تو حکومت مجبور ہو کرکھیت سے  منڈیوں تک سڑکیں  بنائےگی۔ جو لوگ ان حسین وادیوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر چکے  ہیں واپس ائینگے علاقے کو ترقی ملے گی۔تیسری بات اگاہی  و شعورکو غیر حکومتی تنظیم کے لوگ انگریزی زبان میں  (Awareness)کہتے ہیں۔میرا سوال متعلقہ شعبہ اور دیگر پراجیکٹ سےہےوہ  ان اہداف کو حاصل کرنے میں  ناکام کیوں ہیں ؟میرا گھر رائین تورکہو روڈ پر واقع ہے میرے گھر کے ساتھ محکمہ زراعت کی ایک” سرکاری نرسری”اورایک ذوالفقار علی بٹھو دورمیں  تعمیر شدہ محکمہ صحت کا  ایک سرکاری(M.C.H centerRayeen)”زچہ و بچہ کا مرکز  صحت “ناگفتہ بہہ حالت میں اپنی اخیری سانس لے رہی ہیں   ۔  رائین ناشپاتی کےپیداوارکے لئے مشہور مقام ہے لیکن اس شعبے نے اس گاؤں میں بھی کسی کو باغبانی کی اگاہی نہ دے سکےاور علاقے کے لوگ وہی پرانی روایتی طریقےسےباغبانی کرتے رہتے ہیں ۔جب سے ہوش سنبھالا ہے مختلف پراجیکٹ  کی قیمتی گاڑیاں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ دھولاڑاتےہوئے  گزرتی تھیں  تودوسری طرف اس گردو غبار کی وجہ سے ایک گھنٹے تک بہت قریب سے ایک دوسر ےکو دیکھنابھی محال ہوتا تھا ۔ ہمارا خیال تھا، یہ لوگ کسی ضروری کا م کے سلسلے میں لوگوں کو آگاہی دینے یعنی تعلیم ،صحت ، زراعت اور معیشت کو بہتر بنانے کے سلسلےمیں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ جا رہے ہیں۔  خیر کوئی بات نہیں، لیکن پچھلے سال کہوت کے میرے میزبان کی بریفنگ سےاس راز کا پتہ  چلا کہ لوگ کتنے اگاہ ہو چکے ہیں۔ دوسری  طرف (A.K.H.S.P) کےزیر  نگرانی تحصیل ہیڈکواٹرشاگرام میں قائم سرکاری” رورل ہیلتھ سنٹرمیں “پبلک پرائیوٹ پاٹنر شب “کے تحت چلنے والے  صحت کے مرکز میں گائیناکالوجسٹ کی عدم دستیابی،دیگرسہولیات کی کمی اور ناتجربہ کار نرسز کے ہاتھوں  آئے روز دوران  زچگی اور بچے کے پیدائیش کے دوران ماؤں کی اموات کی بڑھتی ہوئی شرح انکی غفلت عدم اگاہیوشعور کے غمازہیں  دوسری طرف اسی عفلت کی بناء پر اکثرمائیں روایتی طریقے سے گھروں میں ہی بچوں کی پیدائیش کو ترجیح دے رہے ہیں اور ان دنوں اس قسم کے واقعات پیش آچکے ہیں ۔مگر کوئی پُرسان حال نہیں ہے،اگر یہ واقعات کسی ترقی یافتہ ملک میں مہذب،ذمہ دار،ان سہولیات کی دستیابی اور ان نقائص کی روک تھام کی  مد میں  بھاری تنحواہ وصول کرنے والے لوگوں کے درمیان  پیش آتے، اُنکے اُپر نشست کرتے، معافی مانگتے، استعفی پیش کرتے ،تفتیش کراتے اورمسئلے کی تہ تک پہنچ کرائندہ ، اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کےلئے منصوبہ بندی کرتے اور متاثرین کی دلجوئی کرتے ۔کیونکہ یہ شرم کی بات ہےاور دُنیا میں بچوں کے پیدائیش کے دوران ماؤں کے اموات کی شرح میںنمایاں کمی ائی ہے۔ دوسری طرف تازہ ترین تحقیق کے مطابق اس قسم کے واقعات صرف افریقہ کے پسماندہ ترین علاقوں میں  آجکل پیش آتے ہیں ۔

میں گلگت گیا نہیں ہوں ،لیکن اس کے بارے میں  بہت کچھ معلومات رکھتا ہوں اُمید ہے یہ خواہش جلد پوری ہو جائےگی۔بقول ایک گللگتی دوست گلگت ترقی کے اس سفر میں چترال  سے سو سال اگے ہے، کیونکہ وہ لوگ ہم سے زیادہ اگاہ ہو چکے ہیں ۔اپنے وسائل کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے اور بہترین انداز میں پیش کرنے کے گر سے واقف ہو چکے ہیں ۔زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کر چکے ہیں ۔وہاں  پر غیر حکومتی تنظیمات  اور  سرکاری شعبے ٹھیک  ٹھاک کام کررہے ہیں۔  لیکن  چترال میں  کیوں نہیں ؟ اُدھر سے جواب آئے گا  چترال میں  قبولیت (acceptance)نہیں ہے۔فرقہ بندی ہے جہالت،قوم پرستی ہے،ایک دوسرے کے رائے کو اہمیت دینےاور برداشت کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔لیکن ابھی تک  اس تنگ وادی میں بسنے والے سادہ لوح لوگوں کی ذہن سازی اگاہی و شعور کے اہداف کو پورا کرنا چاہئے تھا لیکن نہ کر سکا۔کیونکہ گلگت میں تین فرقے اپس میں دست و گریبان ہیں ،وہیں پر  آئے روزنا خوشگوار واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جبب علاقے کی ترقی کی باتاجاتی ہےتو  تما م اختلافات کویکسر بھول جاتے ہیں۔۔۔۔ تو ہم چترال  کے  لوگوں میں اس قسم کے شعور واگاہی  پیدا کیوں نہیں ہو   رہی ہے؟ہم آج تک کم از کم  اپنے خوبانیوں کو خشک کر کے مارکیٹ تک کیوں  نہیں پہنچا سکے ہیں ؟ہم  ابھی تک مارکیٹ میں اپنی دیگر  مصنوعات کو  پہنچا نے میں دیر کیوں کی ہیں  ؟ ہم چترال کی ترقی و فلاح وبہبود کے کاموں میں  تمام اختلافات کو بُھلا کر ایک کیوں نہیں ہو سکتے ہیں ؟اخر انکی وجوہات کیا ہیں؟ اسکی تہ تک پہنچ کر دیگر علاقوں کے طرز پر ایک ہو کر اپنے چترال کے باشندوں کی معیشت اور معیار زندگی کو بہتر   بنانے کی فکر کیوں نہیں کررہے ہیں؟وقت تقاضا کرتا ہےان منصوبہ بندی  کی راہ میں روڑے اٹکانے اور دیر  کرانے والےعناصر کی نشاندہی کرائی جائے۔اس پر مکمل سروے کرنے اور تمام  طبقوں سے رائے لینے کی اشد ضرورت ہے۔

 میرے اس تلخ تجزیےسے یقیناً کئی ایک کی دل آزارہوئی ہو گی ۔لیکن میری خواہش ہے کہ ہم اپنے تمام تراختلافات کو بُھلا کراس پسماند ہ ضلع کی ترقی و خوشحالی پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے تمام شعبوں میں آگاہی مہم چلائے،سکول اور کالجز کی طرح دیگر شعبہ جات میں کمیونٹی کے لوگوں پر مشتمل کونسل بنانے کی ضرورت ہے ۔تاکہ عوام اپنے حقوق سے باخبر رہے، انکی معیار زندگی بہتر  ہو سکے۔تمام سرکاری منصوبہ جات پر ہر ایک فرد کو نگرانی اور اس میں رُکاوٹ ڈالنے والوں کے بارے اگاہ  کرنےاور مشورےدینے  کا حق دیا جائے ۔تاکہ ہم بہتر منصوبہ بندی کر کے سیلاب ،زلزلہ اور دیگر قدرتی آفات کا مقابلہ کر سکیں۔میرے خیال میں اگاہی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو انگریزی زبان میں آگاہی مہم  چلاتےہوئے یوں گویا ہوتے ہیں  ۔”اگر  ہم ڈے ون سے پوٹیٹو ،اونین  اوردیگرکراپس پر توجہ دیتےتو  آج ہمیں کسی قسم کی ڈیفیکلٹیز کا سامنا نہ ہوتا ۔ان فیکٹ ہمیں  ایویرنیس  نہ ہونے کی وجہ سے یہ ریزلٹ ایچیو نہیں  کر سکتے ہیں ۔ریلیجیئز مسائیل   ،ٹرائیبلزم  ہمی کورمان راہا رکاوٹواصل کاز شینی  “بھائی میرے ان باتوں کومیں خود بھی نہ سمجھ سکا گوہک ،یارخون ،لاسپور،مدک لشٹ،رام رام ،کہوت اورنشکوہ میں بیٹھا  ایک عام زمیندار بندہ  کس طرح سمجھ کر اگاہی حاصل کرے گا ۔اسکے لئے ہمیںخالص اردو زبان ،کہوار اور دیگر علاقائی   زبانوں  کے ذریعے  آگاہی کے اہداف کو حاصل  کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اسی طرح ہم اپنے علاقے کو ان مشکلات سے نجات دلا سکتے ہیں ۔مستقبل میں  ہم   محنت لگن ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے بھر پورفائیدہ اٹھا  کر  اپنی ابتر معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔تاکہ ہم اپنی قدرتی ذرائع سے بھر پور فائیدہ اٹھا کر چترال کی  معیشت کو بہتر بنا کرپیارے ملک کی ابتر معیشت کو اڑواڑ دینےوالوں کے صف میں شامل ہوسکتے ہیں۔

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں