320

جمعیت علماء اسلام ضلع چترال میں گروپ بندی کا خاتمہ نہیں ہوا ہے، سیکرٹری اطلاعات کا بیان مضحکہ خیز ہے

چترال(نمائندہ ڈیلی چترال)جمعیت علماء اسلام مخالف گروپ کے مولانا بلیناس ،قاری فضل حق ، قاضی فتح اللہ اور کاشف جمال نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اتوار کے روز چترال کے مقامی ہوٹل میں ضلعی مجلس عمومی کے اجلاس میں 348اراکین میں سے نصف سے بھی کم کی حاضری ، جن میں 10عام افراد تھے جوکہ خلاف دستور اور افراد کی تعداد بڑھانے کے لئے لائے گئے تھے، قابل توجہ ہے۔ چونکہ ضلع چترال میں حکومت جمعیت کے شمولیت کے باوجود اتنے کم ارکان کی حاضری موجودہ کابینہ پر باعزت عدم اعتماد ہے۔ اجلاس میں ایجنڈا پر بحث کرنے کی بجائے متنازعہ بلدیاتی انتخابات میں کابینہ کی کوتاہیوں پر بحث ہوئی ، بات بڑھتے بڑھتے ہاتھا ہائی ،بوٹوں، لاتوں اور مکوں کا آزادانہ استعمال ضلعی کابینہ کی مقبولیت کے لئے کافی ہے جوکہ چترال کی تاریخ میں علماء کے اجلاس میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ جھگڑے اور ہاتھا پائی کے بعد ایک گروپ کی طرف سے واک آؤٹ نے کابینہ کے مقبولیت کے تمام راز کھلو دئیے۔اُنہوں نے کہا کہ اجلاس میں قاری عبدالرحمن اور مولانا عبدالرحمن کو اسٹیج پر بیٹھانے کی بات عجیب لگتی ہے ، اسٹیج پر ان دونوں کے علاوہ دوسرے گروپ کے 9افراد بھی تو بیٹھے تھے ، اگر اسٹیج بیٹھانے سے اصولی موقف میں تبدیلی ممکن تھی تو برابری کی بنیاد پر دوسرے اکابرین کو بھی بیٹھنا ضروری تھا لیکن دونوں گروپوں کے مابین اسٹیج پر بیٹھنے پر جھگڑا نہیں ہے بلکہ جمعیت کا حق حاصل نہ کرنے اور ضلعی نظامت کے ووٹ میں جمعیت کے امیدوار کو ووٹ نہ دینے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے جیسے بنیادی امور پر اختلاف ہے جوکہ اب بھی قائم ہیں۔ قبل از وقت اتحاد کی باتیں ناقابل فہم ہیں کیونکہ ایک گروپ نے اپنے موقف اور صوبائی فیصلہ کے خلاف مرکز مین اپیل دائر کیا ہے، مرکزی فیصلہ کے تناظر میں اصلاح احوال کے بارے میں غور کرنا ممکن ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں