365

تھامس(Quillet Thomas)اور جیروم شازیلس (Jerome Chazelas)نے تریچ میر کی چوٹی سر کرنے کے بعد چترال پہنچ کر مقامی میڈیا سے گفتگو

چترال ( محکم الدین ایونی) ایک طویل عرصے بعد چترال میں مہم جوئی کرتے ہوئے فرانس سے تعلق رکھنے والے دو نوجوان مہم جوؤں نے کوہ ہندوکش کی سب سے بڑی چوٹی تریچ میر کو سر کرلیا ہے جبکہ آخری مرتبہ 2001ء میں ایک اطالوی ٹیم نے اسے سر کرلیا تھا۔ مہم جو ٹیم میں شامل نوجوانوں کویلیٹ تھامس(Quillet Thomas)اور جیروم شازیلس (Jerome Chazelas)نے تریچ میر کی چوٹی سر کرنے کے بعد چترال پہنچ کر مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہاڑوں پر چڑھنا اور مہم جوئی کرنا ان کا مشغلہ رہا ہے اورا س سے قبل وہ متعدد پہاڑی چوٹیوں کو سر کرچکے ہیں جن میں بولیویا میں واقع 6300میٹر بلند چوٹی بھی شامل ہے۔ پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ان کوہ پیماؤں نے صحافیوں کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ 4700میٹر سطح سمندر سے بُلند بیس کیمپ میں قیام کے بعد انہوں نے چارمناسب فاصلے پر چار کیمپ لگاکر تریچ میر کی چوٹی سر کرنے میں کامیابی حاصل کی جبکہ آخری کیمپ سے چوٹی تک کاسفر چھ گھنٹوں کا رہا جوکہ انتہائی جان لیوا اور پر خطر تھا ۔ شدید برفانی ہوائیں چلنے کے باعث انہوں نے واپسی کا فیصلہ کرتے کرتے مناسب وقت کا انتظار کیا ، اور موسم سازگار ہونے پر چڑھا ئی جاری رکھی۔ اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔ ان کاکہناتھاکہ تریچ میر کی چوٹی سر کرکے ان کو جو خوشی اور ذہنی تسکین حاصل ہوئی ہے ، وہ زندگی بھر نہیں بھول سکیں گے جبکہ پاکستان میں امن امان کے بارے میں اور دہشت گردی کے حوالے سے بیرون ملک جو تاثر پایا جاتا تھا، وہ بالکل برعکس ثابت ہوا کیونکہ اسلام آباد سے تریچ کی وادی تک انہوں نے جس چین اور سکھ سے سفر کیا، وہ ناقابل بیان ہے ۔ انہوں نے وادی تریچ کے عوام اور اپنے ساتھ کام کرنے والے پورٹروں کی مثبت اور ہمدردا نہ روئیے کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ انہوں نے وادی چترال کی قدرتی حسن اور یہاں سیاحوں اور مہم جوؤں کے لئے پائی جانے والے کشش کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ ایک دفعہ پھر اس چوٹی اور اس کے قریب واقع کوہ ہندوکش کے دیگر چوٹیوں کو سر کرنے کے لئے چترال آئیں گے۔ مہم کے دوران تریچ میر میں موسم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مجموعی طور پر موسم خوشگوار رہا اور برف کے طوفانوں سے بھی اگرچہ ان کا واسطہ پڑا،لیکن یہ بہت زیادہ پرخطر ہرگز نہیں تھے ۔ انہوں نے کہاکہ ان کوپاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے ہر روز اسلام آباد سے موسم کی پیشگوئی سیٹلائٹ فون پر مسیج کے ذریعے مل جاتی تھی، جوکہ ان کے لئے ممدومعاون ثابت ہوا۔ تریچ میر کی چوٹی کو پہلی بار 1950 میں ایک نارویجن مہم جو ٹیم نے سر کرلیا تھا۔ گزشتہ دو ہائیوں سے ملک میں دہشت گردی اور امن امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے کوہ ہندوکش کی چوٹیوں کو سر کرنے کے لئے مہم جو ٹیموں کو آنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی جس کی وجہ سے اس وادی میں 95 ایڈ ونچر ٹورزم سے وابستہ لوگ بے روزگار ہو گئے تھے ۔ اور فرانسیسی ٹیم کی تریچ میر آمد ایک خوشگوار تبدیلی سمجھی جاتی ہے ۔ تریچ وادی سے تعلق رکھنے والے معروف ایڈونچر سٹ گائڈ عبد الرزاق نے ایکسپریس ٹریبیون سے چترال میں کوہ پیمائی کے حوالے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا ۔ کہ 1950سے 2008تک ہندوکُش کی معروف چوٹی تریچ میرTERICHMIR پرتقریبا 120کامیاب مہم جوئی ہو چکے ہیں ۔ اُس وقت اس علاقے میں کوہ پیماؤں کیلئے مقامی مزدور اور پورٹر کم پڑتے تھے ۔ اس لئے کئی ٹیموں کو پورٹرز کی تریچ میر سے واپسی کا انتظار کرنا پڑ تا تھا ۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے ۔ کہ ان مزدوروں اور پورٹروں کی کتنی مانگ تھی ۔ اورُ ان کے گھروں میں کس حد تک روزگار کے حوالے سے خوشحالی تھی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ اگست 2001میں فرانسیسی اور اطالوی ٹیم جن کے ساتھ میں بطور گائڈ کام کرتا تھا ۔ آخری بار تریچ میر پر کوہ پیمائی کی ۔ اُس کے بعد تاحال کوئی ٹیم کوہ پیمائی کی غرض سے چترال نہیں آئی ۔ اور یوں اس شعبے سے وابستہ سینکڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے ۔ عبد الرزاق نے کہا ۔ کہ 2006میں فرانس ، یونان اور جاپان کے کوہ پیماؤں کی تین ٹیمیں تریچ میر کیلئے کو شش کی لیکن اُن کو پرمٹ اور این او سی نہیں دیے گئے ۔ جبکہ تریچ میر کے علاوہ نوشاق (NOSHAQ) استورونال )ٰٰISTORONAL)اور بونی زوم(BOONI ZOM)کیلئے بھی ٹیمیں دلچسپی رکھتی تھیں ۔ لیکن اُن کو بھی یہی مسائل درپیش رہے ۔ 15سال بعد اب چترال میں کوہ پیمائی کے دوبارہ شروع ہونے سے اس شعبے سے وابستہ ہوٹل مالکان ، ڈرائیوروں ، مزدوروں اور پورٹروں میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے ۔ عبدالرازاق نے کہا ۔ کہ حکومت نے مہم جو وں اور کوہ پیماؤں کا رخ چترال کی طرف موڑنے کیلئے تریچ میر کی رائیلٹی میں90فیصد کمی کردی ہے ۔جس کے تحت اب 11000ڈالر کی بجائے صرف 400ڈالر رائیلٹی مقر ر کی گئی ہے ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ چترال کی طرف آئیں ۔ جبکہ اس کی نسبت اسکردو اور گلگت میں صرف 50فیصد کمی کی گئی ہے ۔ عبدالرزاق نے بتایا ۔ کہ روسی ٹیم بھی تریچ میر کی چوٹی سر کرنے میں مصروف ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہندوکُش کی بڑی چوٹی تریچ میر کے علاوہ 42چوٹیاں 7000میٹر سے اور250چوٹیاں 6000میٹرسے بلند ہیں ۔ جبکہ 30چوٹیاں ایسی ہیں ۔ جن کے نام ہی معلوم نہیں ہیں ۔ اور ان چوٹیوں کے ناموں کے بارے میں آنے والی مہم جو ٹیمیں مقامی گائڈ سے پوچھتے ہیں ۔ لیکن ہمارے پاس اُن کا کوئی نام مہم جووں کو بتانے کیلئے موجود نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے سیاحوں خصوصا کوہ پیماؤں کو سہولت دینے کیلئے اگر مزید اقدامات کئے گئے ۔ تو چترال میں بہت بڑی آمدنی اس شعبے سے آئے گی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ہر ٹیم کوہ پیمائی کے دوران ملک میں 30سے50لاکھ روپے خرچ کرتی ہے ۔ جو کہ چترال کے پسماندہ لوگوں کو گھر کی دہلیز پر روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے مترادف ہے ۔ انہوں نے کوہ پیماؤں کیلئے بیس کیمپوں میں گلگت کی طرح پانی کی فراہمی ، ٹائلٹ کی تعمیر اور مزدوروں و ڈرائیوروں کیلئے اجرت فکس کرنے کا مطالبہ کیا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں