459

احتجاجی سیاست کاموسم۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

یوں تو اگست’’ آزادی‘‘ کے مہینے کے طورپر معروف ہے اورہم 14 اگست کوبڑے جوش وخروش کے ساتھ اپنایومِ آزادی مناتے ہیں ۔ کچھ مَنچلے تواِسے مادرپدر آزادی سمجھ کروَن ویلنگ کرتے اورگردنیں بھی تڑواتے ہیں لیکن قومی سطح پریہ دِن بہرحال شان وشوکت سے منایا جاتاہے ۔2014ء سے یہ مہینہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہوگیا ہے ۔ اللہ رکھے ہمارے کپتان صاحب کو، اُنہیں بھی یہی مہینہ احتجاجی سیاست کے لیے ملاہے ۔ اب کی باربھی اُنہوں نے اگست ہی میں اپنے احتجاج کااعلان کیااور سونامیوں کے لیے 7 اگست کادِن بھی مقرر کردیا ۔ اُدھر ’’سیاسی کَزن‘‘ نے بھی کہہ دیا کہ وہ اپنی احتجاجی تحریک کی تاریخ کااعلان 31 جولائی کوکریں گے ۔ ظاہرہے کہ یہ بھی 7 اگست ہی ہوگی ۔ دیکھتے ہیں کہ اب کی باربھی امپائرکی انگلی کھڑی ہوتی ہے یامعاملہ 2014ء کے دھرنے کی طرح ’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ ہوجاتا ہے ۔ ویسے لال حویلی والے صاحب کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ہے کیونکہ ایسے ہی معاملات میں نیوزچینلز کواُن کی پیشین گوئیوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل وہ کسی نہ کسی نیوزچینل پر براجمان نظرآتے ہیں۔ اُن کی پیشین گوئیوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اب تودوسرے پیشین گوئیاں کرنے والے ٹھیک ٹھیک نشانے لگاتے ہیں ۔ اُن کاطریقۂ واردات یہ ہے کہ جوکچھ لال حویلی والے صاحب کہتے ہیں وہ اُس کے بالکل اُلٹ پیشین گوئی کردیتے ہیں جو بالکل درست ثابت ہوتی ہے ۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی شیخ صاحب جگہ جگہ ’’َ ٹلیاں‘‘ کھڑکاکر لوگوں کو خبردار کرتے رہتے ہیں ۔ ویسے اگرشیخ صاحب اپنی لال حویلی کے سامنے ’’تھَڑے‘‘ پربیٹھ کرفال نکالنے والا طوطا ساتھ رکھ لیں تواُن کا کاروبار چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتاہے کہ اب کی باربھی سیاسی کزنز ہی مِل کر دھوم دھڑکا کریں گے کیونکہ باقی سب تو ’’پھُر‘‘ ہوگئے ۔ ابتدامیں تواپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک بڑے زوروں پر تھی اورخیال یہی تھاکہ سڑکوں پر کپتان اوربلاول مِل کر دھمال ڈالیں گے لیکن پتہ نہیں میاں نوازشریف کے پاس کوئی ’’گِدڑسِنگھی‘‘ ہے یااپنے کپتان صاحب کی قسمت ہی ایسی ہے کہ ایک ایک کرکے سبھی ساتھ چھوڑگئے لیکن پھربھی کپتان صاحب کاعزم جواں اور وہ اکیلے ہی سڑکوں پرنکلنے کے لیے تیار۔ اُن کے جذبہ وجنوں کودیکھ کرکہا جاسکتا ہے کہ
منزلِ عشق پہ تنہا پہنچے ، کوئی تمنّا ساتھ نہ تھی
ٹھَک تھَک کر اِس راہ میں آخراِک اِک ساتھی چھوٹ گیا
مسندِ اقتدار تک پہنچنے کی ایسی تڑپ ، کَسک، لَگن ، جذبہ ، جنوں اورعشق دیکھا نہ سُنا۔ ویسے اگرہم میاں برادران کی جگہ ہوتے توخود ہی اقتدار کپتان صاحب کے سپرد کردیتے کہ ہمدردی بھی کوئی شَے ہوتی ہے ۔لیکن وہ توایسا کرنے سے رہے کیونکہ اُنہوں نے ابھی اقتصادی راہداری کو پایۂ تکمیل تک پہنچاناہے ، لوڈشیڈنگ کاخاتمہ کرناہے ، سڑکوں کا جال بچھاناہے اورجگہ جگہ میٹروبَس اوراورنج ٹرین چلاکر رقیبوں کے سینوں پر مونگ دَلنی ہے ۔ اگروہ یہ سب کچھ کرگئے توپھر اگلی باری بھی اُن کی پکّی اوراحسن اقبال توکہتے ہیں کہ وہ 2025ء تک پاکستان کودُنیاکی پچیسویں بڑی اقتصادی طاقت بناکر ہی دَم لیں گے ۔ یہی بات اپوزیشن کوہر وقت بے چین رکھتی ہے اورکپتان صاحب توباقاعدہ تلملاتے رہتے ہیں۔
کپتان صاحب کی تلملاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود اُن کے اپنے ہی گھر کے چراغوں سے ایسی آگ بھڑکی کہ اب اُس کے شُعلے ہَر کَس وناکس کوبھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک نے توبَرملا کہہ دیاکہ کپتان صاحب جوکام 90 دِنوں میں کرنا چاہتے ہیں وہ تو 5 سالوں میں بھی ممکن نہیں۔ پارٹی کے اندر خلفشار کایہ عالم کہ اِس میں کئی گروپ بَن چکے ہیں ۔ چودھری سرور ناراض ہوکر لندن بیٹھ رہے ، شاہ محمود قریشی اور جہانگیرترین کی آپس میں بول چال بند اورخیبرپختونخوا میں پرویزخٹک کے خلاف کم وبیش 12 ارکانِ اسمبلی کا مضبوط گروپ بَن چکا۔ کپتان صاحب نے خٹک صاحب کو کہاتھا کہ وہ ناراض ارکان کومنائیں کیونکہ احتجاجی تحریک شروع کرنی ہے لیکن اُس دبنگ پٹھان نے ٹَکا سا جواب دے دیا۔ پھر چاروناچارعمران خاں کو یہ ذمہ داری جہانگیرترین کوسونپنی پڑی ۔ اِن حالات میں احتجاجی تحریک کا کامیاب ہونا ذرا مشکل ہی نظرآتا ہے۔
2014ء کے دھرنے میں شیخ رشید جیسے مشیروں نے کپتان صاحب کو یقین دلادیا تھا کہ اِدھر وہ اپنا لاؤلشکر لے کر ڈی چوک اسلام آباد پرحملہ آورہوئے اور اُدھر امپائر کی انگلی کھڑی ہوئی ۔ اُس وقت کچھ لوگوں کی اُنہیں آشیرباد بھی حاصل تھی اور ایک ریٹائرڈ جرنیل سے کپتان صاحب کی ملاقاتیں تو زباں زدِعام تھیں ۔ مولانا طاہرالقادری کے مریدین نے احتجاج کی رونق بھی دوبالا کررکھی تھی اورالیکٹرانک میڈیاپر بیٹھے بزرجمہروں کے تجزیوں ، تبصروں نے بھی ایساماحول پیدا کردیا تھاکہ نوازلیگ کے لیے حالات کو کنٹرول کرنا دِن بدن مشکل سے مشکل تَر ہوتا جا رہاتھا لیکن سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی جمہوریت کے ساتھ واضح کمٹمنٹ آڑے آئی اورامپائرکی انگلی کھڑی نہ ہوسکی ۔ اب بھی سیاسی اورعسکری قیادت کے ایک صفحے پرنہ ہونے کے تاثر نے کپتان صاحب کوایک دفعہ پھرقسمت آزمائی کی طرف راغب کردیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاثر بھی اُنہی بزرجمہروں کاپیدا کردہ ہے جو 2014ء میں چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھارہے تھے ۔ حقیقت یہی کہ محترم سپہ سالارکی آج بھی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ میں کوئی کمی نہیںآئی اورنہ ہی سیاسی وعسکری قیادت میں سَردمہری کاکوئی تاثر پایاجاتا ہے ۔ بفرضِ محال فوج اقتدارپر قبضہ کرنے کی ٹھان لیتی ہے (جس کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں) توپھر بھی کپتان صاحب کے ہاتھ تو کچھ نہیںآئے گا اورمنزل اُن سے کوسوں دُورچلی جائے گی ۔ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں نے تواِس کاادراک کرلیا ۔ اِسی لیے وہ کپتان صاحب سے الگ کھڑی نظرآتی ہیں لیکن کپتان صاحب توفوج کے آنے پرمٹھائیاں بانٹنے کے چکرمیں ہیں ۔
کپتان صاحب کے لیے ترکی کی ناکام بغاوت بھی تازیانے سے کم نہیں۔ اُدھر کپتان صاحب کافوج کے آنے پرلوگوں کے مٹھائیاں بانٹنے کابیان سامنے آیا اوراِدھر ترکی کے نہتے عوام نے فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ کراُس بغاوت کوناکام بنادیا جس کی پُشت پرلَگ بھَگ ڈیڑھ سو جرنیل ، فوج اورپولیس کے ہزاروں جوان اورکئی ادارے شامل تھے ۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہوگا جس نے ترکی کی اِس عوامی قوت کوتحسین کی نگاہ سے نہ دیکھاہو ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر کے انتخابات میں کپتان صاحب کوبُری ہزیمت کاسامنا کرناپڑا اورمیاں نوازشریف صاحب نے بھی ہنستے مسکراتے کہہ دیاکہ 2 سیٹوں والے بھلا کیا دھرنا دیں گے ۔ احتجاج کپتان صاحب کاحق ہے لیکن اُنہیں یہ توسوچ لینا چاہیے کہ کیااِس کے لیے حالات بھی سازگار ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں