344

جنرل ایوب خان کے دو بڑے احسانات اور بڑے نقصانات۔۔۔۔۔۔ سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر

logo
احسانات : دارالخلافہ کراچی سے اسلام آباد لانا
: تُربیلہ ڈیم بنانا
نقصانات : مشرقی پاکستان کو صرف ایک صوبہ بنانا
: جنرل یحیٰ خا ن کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنانا

پاکستان کو مزید 16 صوبوں میں تقسیم کرنا ملک کے مفاد میں بہتر ہو گا
ملک دشمن ، قانون شکن ، دہشت گرد ، اغوا کار اور ٹارگٹ کلرز تک پہنچنے کا واحد راستہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو مزید چار ، چار انتظامی یونٹوں (صوبوں ) میں تقسیم کرنے سے ہی ممکن ہے۔
1960 ؁ء کی دہائی میں (One Unit ) کو توڑ کر پاکستان کے پانچ صوبے بنائے گئے مگر تقسیم کاروں نے مشرقی پاکستان کی کروڑوں کی آبادی کو ایک صوبہ اور مغربی پاکستان کی پانچ کروڑ آبادی کے چار صوبے بنا کر مشرقی پاکستان کے مخلص پاکستانیوں کے دل میں نفرت کا بیج بو دیا ۔ جس کا پھل 1970 ؁ء میں بنگلہ دیش اور (90,000 ) بہادر مسلم فورس کے جوانوں کے ہندو بنیئے کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی صورت میں کھانا پڑا ۔ اور اسی قومی سطح کی غلطی کے اثرات ہی ہیں کہ بنگلہ دیش میں اب بھی پاکستان زندہ باد کہنے والے مسلمانوں کو پھانسی دی جا رہی ہے ۔ اگر اس وقت مشرقی پاکستان کے بھی چار صوبے بنائے جاتے تو اتنی بڑی آبادی اور اتنا بڑا رقبہ ایک پلیٹ میں سجا کر ملک دشمنوں اور علیحدگی پسندوں کو نہ ملتا اور چھوٹی سی آبادی کے ایک صوبے کو ملک کی شکل میں آزاد کرنے کی بات حماقت لگتی۔
تاریخ سے سبق لیکر کروڑوں کی آبادی تک پہنچے ہوئے صوبوں کو لاکھوں تک پہنچانا ملک کی بقاء کے لئے نہایت ضروری ہے ۔بدقسمتی سے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس بچے کھچے پاکستان میں آج بھی پختونستان ، (Greater Balochistan ) ، سندھودیش اور جناح پور کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ اور اگربروقت مرض کا علاج نہ کیا جائے تو چھوٹے چھوٹے زخم کینسر کی شکل اختیار کر کے آپریشن کی نوبت تک پہنچ جاتے ہیں۔
1960 ؁ء کی دھائی میں انتظامی مضبوطی (Good Governance) ہی کیلئے پاکستان کو اس وقت کی آبادی کے لحاظ سے پانچ صوبوں تقسیم کیا گیا تھا۔مگر اب سندھ کی آبادیچھہ کروڑ (6,00,00,000) ، پنجاب کی آبادی دس کروڑ (10,00,00,000) ، خیبر پختونخواہ کی آبادی کم و بیش چارکروڑ (4,00,00,000) ، بلوچستان کی آبادی دو کروڑ (2,00,00,000) اور قبائلی علاقوں اور شمالی علاقہ جات کو ملا کر تین کروڑ(3,00,00,000) کل آبادی تقریبا پچیس کروڑ (25,00,00,000) تک پہنچ چکی ہے۔
اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ٹھنڈے دل سے آنے والے (100) سو سال کے لئے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ صرف کراچی کی آبادی نیپال اور سری لنکا سے زیادہ ہے ۔ اور کئی ایک ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے تو پھر اس کو ایک وزیر اعلیٰ ،ایک چیف سیکریٹری،ایک ای۔جی۔پی، اور ایک کور کمانڈر لاکھوں مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے صوبے کو جس کی سرحدیں پنجاب ، بلوچستان،ہندوستان اور سمندر کے بے انتہا ساحل تک پھیلی ہوئی ہوں کیسے کنٹرول کریں گے۔ اسی طرح پنجاب کی سرحدیں اسان میدانی پیدل اور سائیکل پر ہندوستان کے دیہات تک ہزاروں میل تک لگتے ہیں اور بلوچستان ،خیبر پختونخواہ اور کشمیر کے ساتھ لگے ہوئے لاکھوں مربع میل کا علاقہ کروڑوں کی آبادی ایک لاہور ہندوستان سے چھہ(6) کلومیٹر پر بیٹھے ہوئے وزیر اعلیٰ پندرہ سو (1,500) کلو میٹر دور رحیم یار خان ، ڈیرہ غازی خان اور میانوالی کی سرحدات سے لیکر اٹک تک کیسے سنبھالے ۔
بلوچستان بیابانوں ، پہاڑوں اور ریگ زاروں کا کم آبادی کا ایک وسیع علاقہ ایران سے لیکر افغانستان ، خیبرپختونخواہ ، سندھ اور پنجاب تک پھیلا ہوا دشوار گذار سمندری ساحل کے ساتھ جڑا ہوا تعلیم ، صحت ، گیس ، بجلی اور سڑکوں سے محروم لوگوں کو کوئٹہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر قوموں میں بٹے ہوئے سرداروں کی غلامی میں ہزاروں سال سے رہنے والے باشندوں کو کنٹرول کرنا کس طرح ممکن ہو گا ۔ جبکہ ایک بے گناہ شخص اپنے آپ کو قاتل اقرار کرکے اپنے سرداروں کے لئے پھانسی پر چڑھنے کو تیار ہوں۔
اسی طرح KPK چترال کے بروغل ، گوبور اور شندور سے لیکر درۂ خیبر ، ڈیرہ اسماعیل خان ،داسو ، پاراچنار ، کالام ، شانگلہ اور وانا تک کا علاقہ اور افغانستان اور تاجکستان تک کی دو ھزار (2,000) کلو میٹر لمبی سرحدات اور کروڑوں کی آبادی کوپشاور میں بیٹھ کر کنٹرول کرنا نہایت مشکل ہو گیا ہے ۔
خاص کر ہندوستان ، ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کوئی مثالی تو نہیں ۔ اور ہم نے روس کو افغانستان میں شکست دیکر پوری دنیا کو کمیونزم کے خطرات سے تو بچا لیا مگر اس سے نہ افغان خوش ہیں اور نہ ہی امریکہ ، امریکہ بہادر تو روس کے اٹھارہ(18) ٹکڑے ہونے کے بعد پوری دنیا پر (New World Order) کے تحت حکمرانی بزور شمشیر اور خون خرابہ کرنے پر تُلا ہوا ہے ۔ اور رحم و کرم ، مہربانی اور تعلیم و صحت ، بجلی ، سڑکوں اور دیگر انسانی ضروریات کی فراہمی سے دلوں کو جیتنے کے بجائے اکھاڑ پچھاڑ کا ایک ڈرامہ رچایا ہوا ہے ۔ کسی بھی آزاد ملک کو اپنی مرضی پر حکمران منتخب کرنے نہیں دیتا ۔ جس کی بناء پر عراق ، لیبیاء ، مصر ، شام ، لبنان ، یمن ، الجزائر ، ترکی سوڈان اور افغانستان میں انسانیت آرام کی نیند سونے سے محروم ہے۔ پاکستان میں بھی لگاتار مارشل لاء کے بعد جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتا ۔
دھشت گرد دھماکے کر کے لاکھوں معصوموں کی جان لے چکے ہیں مگر ان کی کمانڈ کس کے ہاتھ میں ہے ابھی تک سراغ نہیں ملا ۔ اس طرح سُرعت اور کمال ہوشیاری سے تمام سیکیورٹی دیواروں کو پار کرکے اپنے ٹارگٹ پر کاروائی کر کے سُراغ مٹا کر غائب ہو جانا کسی غیر تربیت یافتہ اور غیر منظم گروہ کا کام ہر گز نہیں ہو سکتا۔
یہ کس کے دوست اور کس کے دشمن ہیں اس بات کا اندازہ لگانا بھی ایک معمہ ہو گیا ہے ۔جن اہداف کو یہ لوگ نشانہ بناتے ہیں اس سے امریکہ کو کیا نقصان ہوتا ہے ۔ اگر یہ لوگ آرمی کے دشمن ہیں تو مینا بازار میں چھوٹی چھوٹی معصوم ہاتھوں پر مہندی لگوانے کیلئے آئی ہوئی بچیوں کے پرخچے اڑانے کا کیا مطلب ہے۔اگر یہ لوگ اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں تو عید کی نمازوں اور جمعۃ المبارک کے نمازیوں کو اُڑانے سے اسلام کی کونسی خدمت کر رہے ہیں ۔ اگر یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں تو گرجا گھروں میں عبادت کے دوران یا کرسمس کے دوران بے گناہوں پر قاتلانہ حملے کون کروا رہا ہے۔ بحر حال یہ مسئلہ پیچیدہ اور غور طلب ہے اس پر غور وفکر کے لئے ہمارے بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔
انتہائی عجیب اور حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی خودکش بمبار کے لئے کسی گھر میں سوگ دعائیہ تقاریب اور غائبانہ نماز جنازہ کسی گاؤں میں نہیں ہوئی ۔ یہ کون لوگ ہیں کیا یہ لوگ کسی کے بھائی ، بیٹے ، شوھر ، باپ ، چچا ، ماموں نہیں ہیں ۔ چلو اس موضوع پر الگ ہی کوئی مضمون تفصیل سے لکھنے کی جسارت کریں گے ۔ اب تو پاکستان کو نئے انتظامی بہتری (Good Governance) ، ٹارگٹ کلرز اور اغواکاروں تک پہنچنے کے لئے سولہ (16) نئے جغرافیائی حقائق کے مطابق تقسیم پر ہی بات کرتے ہیں۔ اور پورا نقشہ بنا کر پیش خدمت ہے ۔ اس کے فوائد پر مختصر بات کر کے تقسیم کا نقشہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ اگرچہ چھوٹا منہ بڑی بات کی مانند پشتو کی اس مثال کے مصداق میری باتوں کو اہمیت دیں گے یا نہیں ( دہ غریب مُلا پہ بانگ باندے سوک کلمہ نہ وائی) کی حقیقت معلوم ہونے کے باوجود میں اپنی مخلصانہ بات پیش کرنے کی پُرانی عادت رکھتا ہوں۔ اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اگرچہ بت ہیں اس جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم آذاں لااللہ الاالہ
فوائد

01 : بیروزگاری کا خاتمہ : چاروں صوبوں کو 04 – 04 صوبوں میں تقسیم کرنے سے پورے ملک میں لاکھوں Class – 4 سے لیکر D.M.G گروپ ، CSP سے لیکر P.C.S اور کلرک سے لیکر کمپیوٹر آپریٹرز ، وزرائے اعلیٰ سے لیکر وزراء کی حد تک ہزاروں لوگ باعزت نام اور کام کے ساتھ ملک کی خدمت کریں گے۔پنجاب کے 04 وزرائے اعلیٰ ، سندھ کے 04 وزرائے اعلیٰ ، بلوچستان کے 04 وزرائے اعلیٰ ، خیبر پختونخواہ کے 04 وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے صوبوں کے محدود علاقوں کی امن و ترقی اور انتظامی امور کے ذمہ دار ہوں گے۔
02 : تمام (16) صوبوں میں معدنیات ، سیاحت ، تجارت اور بجلی گھروں کی تعمیر کا کام آسان ہو گا ۔
03 : تمام وزرائے اعلیٰ آپس میں M O U کا معاہدہ کر کے ہر شعبے میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے ۔
04 : ملک میں بیشمار تعلیم یافتہ افراد (مرد و خواتین) کی بیروزگاری کا کسی حد تک ازالہ ہو جائے گا ۔
05 : وزارت کے شوقین حضرات اپنے محدود صوبوں میں وزیر، مشیراور وزیر اعلیٰ بن کر ملک کی خدمت کرنے لگیں گے ۔
06 : سینٹ میں ہر صوبے سے نمائندے آکر اپنے اپنے علاقوں کی بہتری کی تجاویز دیں گے ۔
07 : ہر صوبے کو 50% اخراجات انتظامی خود اپنے وسائل سے پیدا کرنے کا پابند بنا کر خود انحصاری پر چلانا ممکن ہو گا
08 : تمام اداروں کی بہتر نگرانی کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن اور ترقیاتی کاموں کی تکمیل بہتر طریقے سے ہو سکے گی
09 : مجرموں تک پہنچنا نہایت آسان ہو گائیگا ۔
10 : ہر صوبے میں بہترین یونیورسٹیاں ، کیڈٹ کالج ، میڈیکل کالج ، اور دیگر تمام تعلیمی سہولیات بیم پہنچانے سے لوگوں کا شہروں کی طرف رُخ کرنا کم ہو جائے گا ۔ خاص طور پر صحت کے تمام شعبوں میں علاج معالجے کے بین الاقوامی معیار کے اسپتالوں کے صوبوں میں قیام سے علاج کی سہولت سب کو کم خرچہ پر میسر آجائے گی ۔ ہائی کورٹ کی برانچز کی تعداد اور سپریم کورٹ کی بینچوں کے ہر صوبے میں قیام سے عدالتوں میں پھنسے ہوئے لاکھوں مقدمات کا فیصلہ جلد کرنا ممکن ہو جائے گا ۔
11 : ہر صوبے کی اپنی پولیس ، رینجرز اور دیگر سیکیورٹی اور انٹیلیجنس کے ادارے اپنے اپنے صوبوں کے غلط کار (مجرموں) کوآسانی سے پکڑ سکیں گے ۔
اب صوبوں کی تقسیم اور ان کے اضلاع
KPK کے 04 صوبے اور ان کے اضلاع و ایجنسیاں
(01) صوبہ کوہستان اور اس کے اضلاع و ایجنسیز
اضلاع 01 : چترال و مستوج 02 : اپر دیر 03 : لوئر دیر 04 : سوات 05 : بونیر 06 : شانگلہ
ایجنسیز 01 : باجوڑ ایجنسی 02 : مہمند ایجنسی کے شیوا پہاڑی کے قبلے کی طرف کے تمام علاقے 03 : مالا کنڈ ایجنسی کے مالا کنڈ کی پہاڑی سے سوات اور دیر کی طرف کے تمام علاقے
(02) صوبہ پختونستان اور اس کے اضلاع و ایجنسیز
اضلاع 01 : پشاور 02 : چارسدہ 03 : نوشہرہ 04 : مردان 05 : صوابی
ایجنسیز 01 : مہمند ایجنسی کے شبقدر کی طرف کے علاقے شیواہ پہاڑی کی چوٹی تک 02 : خیبر ایجنسی مکمل 03 : کُرم ایجنسی کے کوہاٹ ٹنل سے پشاور کی جانب کے تمام علاقے۔
(03) صوبہ وزیرستان اور اس کے اضلاع و ایجنسیز
اضلاع 01 : کوہاٹ 02 : بنوں 03 : ڈیرہ اسماعیل خان 04 : ٹانک
ایجنسیز 01 : کُرم ایجنسی کے کوہاٹ ٹنل کے کوہاٹ کی طرف کے تمام علاقے ، پاراچنار 02 : شمالی وزیرستان 03 : جنوبی وزیرستان

(04) صوبہ ہزارہ اور اس کے اضلاع
اضلاع 01 : ہری پور 02 : ایبٹ آباد 03 : مانسہرہ 04 : بٹگرام 05 : اپر کوہستان 06 : لوئر کوہستان 07 : تورغر
صوبہ پنجاب کے 04 صوبے بلحاظ جغرافیائی حیثیت
(01) صوبہ لاہور اور اس کے اضلاع
اضلاع 01 : لاہور 02 : گوجرانوالہ 03 : گجرات 04 : جہلم 05 : منڈی بہاء الدین 06 : حافظ آباد 07 : شیخو پورہ 08 : قصور 09 : اوکاڑہ 10 : ٹوبہ ٹیک سنگھ 11 :ساہیوال 12 : بہاولنگر 13 : وہاڑی 14 : سیالکوٹ
(02) صوبہ بہاولپور اور اس کے اضلاع
اضلاع 01 : بہاولپور 02 : رحیم یار خان 03 : راجن پور 04 : مظفر گڑھ 05 : ڈیرہ غازی خان 06 : ملتان 07 : لیہ 08 : بھکر
(03) صوبہ فیصل آباد اور اس کے اضلاع
اضلاع 01 : سرگودھا 02 : جوہر آباد 03 : جھنگ 04 : فیصل آباد 05 : میانوالی
(04) صوبہ پوٹھو ہار اور اس کے اضلاع
اضلاع 01 : راولپنڈی 02 : گوجر خان 03 : چکوال 04 : اٹک 05 : حسن ابدال
صوبہ بلوچستان کے 04 صوبے بلحاظ جغرافیائی حیثیت
(01) صوبہ کوئٹہ اور اس کے اضلاع
اضلاع 01 : کوئٹہ 02 : بہاول خان 03 : مستونگ 04 : زیارت 05 : ہزار شہر 06 : لورالائی 07 : ہرنائی 08 : سبی 09 : ڈھاڈر 10 : ڈیرہ بگٹی
(03) صوبہ قلات اور اس کے اضلاع
اضلاع 01 : قلات 02 : نوشکی 03 : انجیرہ 04 : مسافر چاکال 05 : خاران 06 : یادگار چوکی 07 : دالبندین 08 : ہرماگائی 09 : سردار چاہ 10 : قلعہ لدگشت 11 : ماشکی چاہ 12 : امیر چاہ 13 : سوراب 14 : ڈیرہ مراد جمالی 15 : سوئی
(04) صوبہ مکران اور اس کے اضلاع
اضلاع 01: آواران 02 : خضدار 03 : نال 04 : رستم شہر 05 : اوتھل 06 : ڈوریجی 07 : لاکھڑا 08 : مالار 09 : جھل جھاؤ 10 : اور ماڑہ 11 : مکولہ 12 : ہوشاب 13 : تُربت 14 : گوادر 14 : پنجگور 15 : پیر کنڈہ 16 : مند 17 : جیوانی 18 : لسبیلہ
صوبہ سندھ کے 04 صوبے بلحاظ جغرافیائی حیثیت
(01) صوبہ کراچی غربی اور اس کے اضلاع
اضلاع : 04 اضلاع ایک کروڑ(1,00,00.000) کی آبادی
(02) صوبہ کراچی شرقی اور اس کے اضلاع
اضلاع : 04 اضلاع ایک کروڑپچاس لاکھ (1,50,00.000) کی آبادی
(03) صوبہ حیدر آباد اور اس کے اضلاع
اضلاع 01 : حیدر آباد 02 : ٹھٹھہ 03 : بدین 04 : مٹھی 05 : عمر کوٹ 06 : میر پور خاص 07سانگھڑ
(04) صوبہ لاڑکانہ اور اس کے اضلاع
اضلاع 01 : لاڑکانہ 02 : نواب شاہ 03 : نوشہرو فیروز 04 : دادو 05 : خیرپور 06 : شکار پور 07 : جیکب آباد 08 : گھوٹکی 09 : میہڑ 10 : میرپور ساکرو 11 : کشمور 12 : سہون شریف 13 : موہنجو داڑو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں