230

جمہوری اقداراور سیاسی کھیل۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

کوئی بھی پاکستانی شہری ایک سے زائد حلقوں میں ووٹ نہیں ڈال سکتامگرایک پاکستانی سیاستدان بیک وقت ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑسکتاہے۔جیل کاٹنے والاکوئی بھی سزایافتہ شہری سرکاری ملازمت حاصل نہیں کرسکتامگرایک پاکستانی سیاستدان مالی بدعنوانی،جعلی ڈگری کیس، د ھوکہ دہی ،اختیارات کے ناجائزاستعمال،قتل وغارت گری ،کارسرکارمیں مداخلت اور اس طرح کے دیگرسنگین نوعیت کے مقدمات میں چاہے کتنی باربھی جیل یاتراکرچکاہوصدر،گورنر، وزیراعظم ،وزیراعلیٰ،ایم این اے،ایم پی اے ،وزیر اور منتخب ایوان میں مشیر اورپارلیمانی سیکرٹری سمیت کوئی بھی عہدہ حاصل کرسکتاہے۔کسی بھی سرکاری محکمے یانجی ادارے میں معمولی ملازمت کے لئے شہری کا گریجوٹ ہونالازمی ہوتا ہے مگر ایک پاکستانی سیاستدان وزیرتعلیم بھی بن سکتاہے چاہے وہ انگوٹھاچھاپ ہی کیوں نہ ہو۔حقیقت احوال تو یہ ہے کہ وکیل بننے کے لئے ایل ایل بی کی ڈگری لینالازمی ہوتاہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ قوانین بنانے کے لئے قانون سازاسمبلیوں میں جانے والے منتخب ممبران اگر اَن پڑھ یاکم پڑھے لکھے ہوتو اس پر کوئی بھی قدغن نہیں ہوتاحالانکہ وہ وہاں قانون سازی کے لئے جاتے ہیں۔ وطن عزیز کی جمہوریت کے دامن پر سیاست کاعجب رنگ چڑھا ہواہے کہ ماسٹر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کومعمولی تصدیق سے لے کر ملازمت کے حصول،تقرری وتعیناتی اورتبادلوں تک منتخب اداروں کے کم پڑھے لکھے مگر منتخب لوگوں کامحتاج بنادیاگیاہے جس کی روسے ملازمت کے حصول میں ایم این ایز،سینیٹرزا ورایم پی ایزکی سفارش لازمی عنصرہوتاہے محکمانہ تبادلہ ہوتو متعلقہ حکام ممبران اسمبلی کی این او سی مانگتے ہیں جبکہ تھانہ کچہریوں ،جیل اورہسپتالوں سمیت کسی بھی ادارے میں ان کی سفارش کے بغیر کسی کوکوئی بھی ریلیف نہیں مل سکتابلکہ سچ تویہ ہے کہ اداروں میں عوام اور ریلیف کے بیچ سب سے بڑی رکاؤٹ ہمارے سیاستدان اور منتخب ممبران اسمبلی ہوتے ہیں۔دیکھاجائے توجمہوری نظام کے تحت چلنے والے ممالک میں جمہوری اقداریہ ہوتے ہیں کہ سیاستدان کاتعلق خواہ کسی بھی جماعت سے ہو منتخب ہونے کے بعدوہ اپنے حلقے کے عوام کامشتر کہ منتخب نمائندہ ہوتاہے جوکسی بھی شعبے میں حلقے کے عوام کے ساتھ یکساں سلوک رکھتاہے بلکہ آئینی لحاظ سے اس کاپوری طرح پابند بھی ہوتاہے مگر ہمارے ہاں ایسانہیں ہے یہاں کی روایتی سیاست میں منتخب ہونے کے بعدکسی بھی ممبراسمبلی کی ترجیحات اس کی اپنی جماعت ہوتی ہیں اور وہ کسی بھی طورسیای مخالف جماعت کے لوگوں کے کام نہیں آتااورجس کی وجہ سے ایک مخصوص طبقہ تو سہولیات سے نوازاجاتاہے لیکن بیشتر عوام سیاسی مخالفت کے جرم کی بھلی چڑھتے ہیں جو یاتو ترقیاتی منصوبوں سے محروم یاپھروقتی فائدہ لینے کی خاطر سیاسی وفاداری تبدیل کرنے پر مجبورہوجاتے ہیں اوریہ جمہوری اقدارکایکسرمنافی عمل ہے۔یہاں بڑاالمیہ یہ بھی ہے کہ یہاں اکثرسیاسی اور مذہبی جماعتیں قومی مفادکی بجائے اپنے اپنے ایجنڈے پر عمل پیراہوتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھاتی دکھائی دیتی ہیں جن کے بل بوتے پر انہیں اقتدارتک رسائی آساں نظرآتی ہو مگراس عمل میں یاتوانہیں قومی نفع ونقصان کااحساس وادراک نہیں ہوتایاوہ سب کچھ سمجھتے ہوئے جان بوجھ کرخودکولاعلم رکھتے ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ دانستہ طورپر کچھ بھی کرگزرتے ہیں اوران کوقومی نفع نقصان سے کوئی سروکارنہیں ہوتابس ان کی منزل حصول اقتدارہوتی ہے۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ دنوں جو کچھ کیاوہ اس کی زندہ مثال ہے۔کہتے ہیں ترقی یافتہ ممالک کی سیاست میں جھوٹ ،فریب اور دھوکہ دہی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی مگریہاں کی سیاست کامعیارہی جھوٹ،فریب اور دھوکہ دہی ہوتاہے اور سیاستدان یہ سوچنے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں کہ انہیں عوام کی عدالت میں بھی جاناہوگااورآج وہ جوکچھ کہہ اورکررہے ہوتے ہیں کل ان کو اس کاخمیازہ بھی بھگتناپڑے گایاپھرشائدوہ اس حقیقت کو بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام کو بھولنے کی عادت ہے اور وہ اپنے سیاستدانوں کے کسی منفی کردارکویادنہیں رکھتے اس لئے وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں اورشائد حقیقت بھی یہی ہے کہ ان سے پوچھنے والاجب کوئی بھی نہیں ہوگاتووہی تو کریں گے وہ جوان کامن چاہے گاکیونکہ المیہ تویہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کا معاملہ جب عوامی عدالت میں آتاہے اور عوام کوان کے قیمتی ووٹ کے ذریعے فیصلہ سازی کااختیارہاتھ لگتاہے تووہ بھی اس کاصحیح استعمال نہیں کرتے۔بدقسمتی سے ہم ایسے لوگوں کومنتخب کرکے قانون ساز اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں جوپانچ سال تک قانون سازی میں حصہ تولیتے ہیں اور پارٹی قیادت کے کہنے پر کسی بل کی حمایت یامخالفت توکرلیتے ہیں لیکن انہیں اس کی حقیقت کاکوئی بھی پتہ نہیں ہوتااور یہ ٹھیک ایساہی ہے جیسے یہاں کسی سے اس کی مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کی وجہ پوچھنے پر جواب یہ ملتاہے کہ ان کی مخصوص سیاسی وابستگی اس بنیادپر ہے کہ ان کے والد یاخاندان کا کوئی اور بزرگ اس جماعت سے وابستہ ہیں اس کامطلب یہ ہواکہ اسے اس مخصوص سیاسی جماعت کی نظریات اورسیاسی ایجنڈے کاپتہ ہوتا ہے نہ اسے یہ سب جاننے سے کوئی سروکارہوتاہے بس باپ جس جماعت میں ہوابیٹابھی وہیں پایاگیا۔ یہاں بیشترلوگ نظریات اور سیاسی کردار سے جانکاری رکھنے کے برعکس جذباتی طورپر مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی اختیارکرلیتے ہیں اور مذہبی جماعتیں بھی عوام کامذہب کے ساتھ جنون کی حد تک لگاؤسے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں ۔اگرچہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جوکچھ کہتے سنائی دیتے ہیں وہ بجاہے لیکن تبدیلی کی جانب سفرمیں جوروائتی سیاستدان ان کے اردگرد نظرآتے ہیں ان کی موجودگی میں نظام میں تبدیلی لانے کی ان کی کوششیں زیادہ بارآورثابت ہونادکھائی نہیں دیتیں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرناہوگاکہ عمران خان نے ملک کے عوام کو شعوروآگہی دے کر انہیں بیدار کردیاہے۔ہمارے سیاستدان اور حکمران کرپٹ ہیں اور کرپٹ حکمرانوں کامحاسبہ ہوناچاہئے عمران خان نے ملک کے آزادمیڈیاکاسہارہ لے کر قوم تک یہی پیغام پہنچایاہے جس کے نتیجے میں آج بڑی تعدادمیں عوام حکمرانوں کے محاسبے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔اگرچہ لولی لنگڑی سہی وطن عزیزمیں جمہوری سفر جاری ہے لیکن جب تک سیاسی ادارے روائتی مدارسے نکل کر صحیحراستے پر نہیں آتے تب تک اجتماعی ترقی اورعوامی خوشحالی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں