349

’’اشرف المخلوقات‘‘۔۔۔۔۔رُموز قلم۔۔’’اشرف المخلوقات‘‘۔۔تحریر۔صوبیہ کامران۔بکرآباد چترال

قدرت کا احسان عظیم ہے کہ انگنت صلاحیتوں اور احساسات کو یکجا کرتے ہوئے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ، ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ بجائے انسان کہ حیوان یا کوئی چرند پرند کی شکل دے دیتا ۔ قدرت نے انسان کو ایک نہایت ہی خوبصورت سانچے میں ڈھالاہے اور اس کے جسم کے ہر عضو کو توانا ، کارآمد اور کامل بنایا ہے، ایسی بھی صورتیں ہیں کہ کسی مصلحت کی بناء پر قدرت نے انسان کو کسی عضو یا احساس سے جزوی یا کلی طور پر محروم کردیا اور اس کو پیدائشی بد صورت یا بیمار یا پھر معذور بنا دیا، یا بجائے کسی ممتاز و معزز قوم ، قبیلے یا خاندان میں پیدا کئے جانے کے اس کے بر عکس عمل کیا ۔ درحقیقت معذور وہ ہے جو اپنے آپ کو لا چار و مجبور سمجھے یا کسی معقول یا حتیٰ کہ معمولی کام کی انجام دہی میں بھی اپنی معذوری کا عذر پیش کرتے ہوئے خود کو دوسروں کے رحم و کرم کے حوالے کر دے ۔ قدرت کا ایک اٹل اصول و فطری مصلحت ہے کہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی چھوٹی یا بڑی خامی میں مبتلا اور نقص سے دوچار ہے ۔ ہم صرف ایک نا مکمل شخص کی نمائندگی کرتے ہیں ، کوئی بھی یہ دعویٰ کبھی بھی نہیں کر سکتا کہ وہ ہر زاویے سے ایک مکمل شخصیت ہے۔ زندگی کے اس طویل سفر میں کہیں نہ کہیں اس کا نقص و لاچاری ابھر کر آتی ہے، اسلئے مایوس ہونے اور افسوس کرنے کے بجائے ہم کو اپنی خامیوں سے آگاہ ہونا او ر ان کو قبول کرنا چاہیے ۔ اس دنیامیں کوئی شخص یا چیز باوجود اپنی نقص اور خامی کے ناکارہ بے مصرف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نقائص کو بہتر طور پر استعمال کرنے اور دنیا کو فیضیاب ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے ، تاکہ انسان میں یہ خوشگوار احساس پیدا ہو کہ اس کی زندگی ان خامیوں کے باوجود اس کیلئے بلکہ دنیا اور اس کے خاندان کیلئے خوبصورت تحفہ ہے۔ یہ حقیقت صرف اور صرف محسوس کرنے ، جاننے اور عمل کرنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ دنیا میں بے شمار مثالیں ایسی ہیں کہ بالکل معذور انسانوں نے جو پیدائشی طور پر یا پیدائش کے بعد کسی مہلک بیماری یا کسی حادثے کے باعث کسی عضو کی خرابی یا خامی اور صلاحیت سے جزوی یا مکمل طور پر محروم ہو چکے ہیں، اپنی معذوری کے باوجود زندگی کا دلیرانہ مقابلہ کیا، حالات سے نبر د آزما ہوئے اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے وقت کی نہایت ہی کامیاب اور مثالی شخصیت بن کر ابھری اور دنیا ان کی تعظیم و تکریم کرنے پر مجبور ہوئی ۔ رشک آتا ہے اور حیرت ہوتی ، ایسے لوگوں کے بڑے کارناموں پر جن کی توقع بھی ان سے نہیں کی جاسکتی، مگر وہ کام ان لوگوں نے کر دیکھایا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں