214

ڈان اسکینڈلـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ محمد صابر گولدور چترال ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

کسی بھی ملکی و ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ رسائی قابل مذمت ہے ملکی سلامتی کے حساس نوعیت کے امور کو ملٹری اور سویلین قیادت مل کر اتفاق رائے سے حل کرتی آئی ہے ـ اور ملک کی مفاد کےلیے سب کا سر جوڑ کر بیٹھنا اور ہر پہلو پر اتفاق رائے قائم کرنا مراد ہے ـ مگر جن کو آپ ملک کےحق میں مخلص اور وفادار سمجھتے ہوں اور وہی ملک کے  سلامتی کےلیے خطرہ بن جائیں تو اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے ـ

حال ہی میں ایک بڑے اسکینڈل کی شکل اختیار کرنے والے ملکی تاریخ کا بڑا اسکنڈل ڈان اسکینڈل جس نے حکومتی ایوانوں میں لرزا برپا کردیا ہےـ

6 اکتوبر 2016 پاکستان کے مشہور و معروف انگریزی اخبار روزنامہ ڈان میں ایک رپورٹ شائع ہوتی ہے ـ

” عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی یا بین الاقوامی تنہائی کا سامنا ،سویلینز نے ملٹری کو آگاہ کر دیا “

ڈان انگریزی اخبار کے سینئر اور پروفشنل جرنلسٹ سرل المیڈا  اس رپورٹ کو سامنے لاتے ہیں  ـ مگر اس رپورٹ کو دونوں جانب کے موقف کو سنے بغیر ہی شائع کردیا جاتا ہے  ـ  صحافی کے باوجود یہ  لکھنے کے کہ یہ رپورٹ غیر مصدقہ ہے ڈان اخبار کے انتظامیہ نے اس خبر کو شائع کر دیا ـ

اس رپورٹ کا منظر پر آنا تھا کہ ملٹری حکومتی اور میڈیا ہاؤسز سب پر طوفان برپا ہو گیا ـ  اس خبر کے شائع ہوتے ہی حکومتی سطح پر وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے دفتر کی جانب سے اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی گئی اور اس رپورٹ کو جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیا گیا ـ ملٹری قیادت کی جانب سے بھی اس رپورٹ کو ناپسندیدگی سے دیکھا جارہا ہے ـ

یہ اجلاس وزیر اعظم ہاؤس میں ملٹری کی اعلی قیادت اور سویلینز کی قیادت میں ہوئی تھی ـ سویلینز کی قیادت میں  چند نون لیگی وزرا بھی اس م اجلاس میں شامل تھے جن پر شک و شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ہی اہم قومی سلامتی کے راز میڈیا پر افشاں کیے ہیں ـ مختلف دانشوروں  کی جانب سے اس خبر کی سختی سے تردید اور صحافی کے صحافتی اصولوں کو بالائے طاق رکھنے پر مایوسی کا بھی اظہار کیا گیا ہے ـ اس واقعہ کے فورا بعد وزیر چوہدری نثار کی جانب سے ڈان کے صحافی سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں میں بھی ڈالا گیا تھا جو کہ بعد میں ہٹا دیا گیا ـ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی انکوائری کےلیے باقاعدہ کمیشن بنایا جائے گا تاکہ پتہ چلے کہ قومی سلامتی کے اجلاس کی امور حساس معلومات کس نے لیک کی ہیں  ـ

اس واقعہ سے پہلے وزیر اعظم ہاؤس کو سب سے محفوظ ترین جگہ مانا جاتا تھا مگر گزشتہ ملکی سلامتی کےلیے بلائے گئے اجلاس اور اےـ اپی ـ ایس سانحہ  کے بعد نشنل ایکشن پلان کے اجلاس جو کہ وزیر اعظم ہاؤس ہی میں ہوئے تھے اس واقعہ کے بعد ملٹری اور عوام کی جانب سے شکوک و نے جنم نے لیا ہے ـ میرا نہیں خیال کہ ملٹری لیڈر شپ آئیندہ کبھی وزیراعظم ہاؤس کا انتخاب اہم امور کےلیے کرے گی ـ اس سارے واقعے کے پس منظر میں کس کے ہاتھ ہو سکتے ہیں ؟اجلاس کی ساری کہانی کس نے لیک کی اور اس کے کیا مقاصد تھے ؟ اس پر ابھی مزید تحقیقات ہونی باقی  ہیں ـ ہو سکتا ہے اس سارے واقعے کو صرف اور صرف مقبوضہ کشمیر کی تحریک انتفاضہ سے ہٹانے کےلیے رچایا گیا ہو جس کے سو دن ابھی ابھی مکمل ہو گئے ہیں ـ

ڈان اخبار کی جانب سے صحافتی اصولوں کو خاطر میں نہ لاکر ملکی سلامتی کے حساس باتوں کو یوں بغیر تحقیق کے شائع کرنا قابل مذمت ہے ـ

اجلاس کی بے بنیاد کاروائی  جس کی ملٹری اور حکومتی دونوں جانب سے تردید بھی سامنے آئی ہے ـ یہ خبر ڈان سے پہلے چند اور اخباروں کو شائع کرنے کےلیے آفر کی گئی  تھی مگر ان کے انکار پر یہ خبر ڈان اخبار کو آفر ہوئی جس پر ڈان اخبار نے اس خبر کو دونوں جانب کے رائے لیے بغیر شائع کردی جو کہ صحافتی اصولوں کے سراسر خلاف ہے ـ جہاں تک بات اظہار آزادی  رائے کی  ہے وہ اپنی جگہ درست ہے مگر جہاں  بات ملک کی سلامتی و بقا کی ہو وہاں کسی بھی صورت سمجھوتہ نہیں کیا  جائے گا ـ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں