270

شہرت گلہ ۔۔۔۔۔تحریر: ظہیر الدین

شہرت جب آتی ہے تو چھت پھاڑ کے آتی ہے جو کسی کی قابلیت اور محنت کی مرہون منت نہیں ہوتی۔ اس کے لئے محض ایک چھوٹا سا بہانہ چاہئے خواہ جس شکل میں بھی ہو اور جس صورت میں ۔آج سے بتیس سال پہلے 1984ء میں معروف انگریزی جریدہ نیشنل جیوگرافک کا فوٹوگرافر پشاور کے قریب ناصر باغ میں واقع افغان مہاجرین کی ایک خیمہ بستی جاکر ایک بارہ سالہ مہاجر لڑکی کی تصویر لیتا ہے اور یہ تصویر اگلے سال جون 1985ء کے شمارے میں چھپ جاتی ہے تو تیز نیلی آنکھوں والی لڑکی کی یہ تصویر دیکھتے ہی دیکھتے سولہویں صدی کی معروف ترین اطالوی مصور لیونارڈ کی شہرہ آفاق تخلیق مونالیزا کو چیلنج کرنے لگ جاتی ہے ۔ خود اس تصویر کے فوٹو گرافر اسٹیو میک کیری کو اس تصویر کے لئے کلک (click) کرتے وقت بھی یہ اندازہ ہر گز نہ تھا کہ وہ ایک تاریخ رقم کرنے اور ایک بے نام افغان مہاجر کو چہار دانگ عالم میں متعارف کرانے جارہے ہیں حالانکہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اس نے بے شمار کلک کیا ہوگا ، کئی دلکش چہرے ، دل موہ لینے والے نظارے ، دل گداز اور افسردہ کرنے والے جنگ کے مناظر ، نایاب اور ناپید ہونے والے جانور ، نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی طرف سے دنیا کے گوشے گوشے میں جانے والا یہ فوٹو گرافر بہت کچھ اپنے کیمرے کے عدسے میں اتارچکا ہوگا لیکن ناصر باغ پشاور میں یہ کلک ایک تاریخی کلک بن گئی ۔ نیلی آنکھوں سے کیمرے کو تکنے والی اس افغان لڑکی کو دیکھنے سے یوں لگتا ہے کہ ان کی آنکھو ں سے لیزر کی شعاعیں نکل کر سیدھا دیکھنے والے کے دل میں پیوست ہوجاتی ہیں اور شائد یہی وجہ شہرت بن گئی۔ عالمی میڈیا میں ان کا نام Afghan Girl اور ‘افغان جنگ کا مونا لیزا’کا نام دیا گیا ۔ قدرت کو شائد انہیں شہرت کی ا یک اور آسمان پر چڑہانا مقصود تھا کہ ان سے جعلی پاکستانی شناختی کارڈ برامد ہوئی، ان کے خلاف کیس رجسٹرڈ ہوئی ،مقامی میڈیا نے اس خبر کو pickکیا اور عالمی میڈیا نے اسے اچھالا اور دیکھتے ہی دیکھتے شربت گلہ کا ہلہ گلہ ہوگیا۔ جس اخبار کو اٹھالو ، شربت گلہ، جس نیوز چینل کو ان کرلو وہاں سے شربت گلہ برامد ہوگئی ، اور سوشل میڈیا پر بھی نیلی آنکھوں والی یہ افغان خاتون راج کرتی نظر آئی۔ حکیم الامت شاعر مشرق نے شائد شربت گلہ کی دل جوئی کے لئے ہی کہا تھا کہ باد مخالف تو تمہیں شہرت کی اوج ثریا تک پہنچانے کے لئے چل رہی ہے جس سے خائف ہونے کی ضرور ت نہیں ۔ اس سے قبل شہرت کی دیوی دو دفعہ شربت گلہ پر مہربان ہوگئی تھی جب 1984ء میں نیشنل جیوگرافک میگزین کا فوٹو گرافر ان کی خیمہ بستی میںآیا تھا اور دوسری بار مارچ 2002ء میں اس وقت جب فوٹوگرافر میک کیری ان کو ڈھونڈ نکالنے اور ان سے ملنے میں کامیاب ہوا ۔ اس وقت ان کی انٹرویو نیشنل جیوگرافک کی ٹی۔ وی پر بھی چل نکلی تھی اورافغان مہاجر بچیوں کی تعلیم کے لئے ان سے منسوب ‘افغان گرل فنڈ ‘بھی قائم کرلیا جبکہ مذہب سے ان کی دلی لگاؤ دیکھ کر ان کے محسنوں نے ا ن کو حج بیت اللہ شریف کے لئے بھی وسائل فراہم کردی۔ جب میک کیری دوسری بار ان سے مل رہا تھا تو 1984ء کا شربت بی بی 2002ء میں شربت گلہ بن گئی تھی کیونکہ اس سے رحمت گل نامی ایک افغان مہاجر سے شادی کرکے گل بن گئی تھی اور اسی نسبت سے شربت گلہ کہلائی جانے لگی تھی۔ 1972ء میں افغانستان کی ایک جنوبی گاؤں میں پیدا ہونے والی شربت بی بی کی ماں باپ اور بہن بھائی سوویت یونین کی افغانستان کی جارحیت کے اوائل ہی میں سوویت جہازوں کی بمباری کے زد میں آکر زندگی کھوبیٹھے اور وہ اپنے چچا سمیت دوسرے رشتہ داروں کے ہمراہ پاکستان میں آکر پشا ور کے قریب خیمہ بستی میں پناہ لے لی جہاں شہرت کی دیوی ان کے لئے عالیشان محل تعمیر کروارہی تھی۔ چھ سال کی عمر میں روسیوں کی اندھادھند بمباری سے وہ اپنے ماں باپ سے تو محروم ہوگئی مگر شہرت کا بقائے دوام ان سے کوئی روسی نہ چھین سکا۔ ہر ماہ 65لاکھ کی تعداد میں اورچالیس مختلف زبانوں میں اشاعت والی دنیا کی قدیم تریں (اشاعت کا آغاز 1888ء میں ہوا تھا) رسالے نے شربت گلہ کو بام عروج پر پہنچادیا ہے ۔ 26۔اکتوبر کو ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی شربت گلہ کو پشاور ہائی کورٹ نے ایک لاکھ دس ہزار روپے جرمانہ اور پندرہ دن قید کی سزا کے بعد پاکستان سے ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ سنادیا ہے جس کے مطابق وہ پانچ دن بعد ڈیورنڈ لائن کے اس پاربھیج دی جائے گی لیکن شربت گلہ کی شہرت تمام جعرافیائی سرحدوں کی قید اور شناختی کارڈ سمیت پاسپو رٹ اور ویزا کی ضرورت سے پاک اور آزاد ہے جوکہ بقاکا امرت پی کر امر ہوگئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں